اشرف غنی نے دھماکوں کی گونج میں دوسری مرتبہ افغان صدر کا حلف اٹھالیا

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2020
ستمبر 2019 میں ہونے والے متنازع انتخاب کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے افغان قیادت کے طور پر منتخب ہونے کا دعویٰ کیا تھا
فائل فوٹو: رائٹرز
ستمبر 2019 میں ہونے والے متنازع انتخاب کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے افغان قیادت کے طور پر منتخب ہونے کا دعویٰ کیا تھا فائل فوٹو: رائٹرز

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے تنازع کے باوجود دوسری مرتبہ صدارت کا حلف اٹھا لیا جبکہ عبداللہ عبداللہ نے بھی متوازی تقریب کا اہتمام کیا اس دوران دو دھماکے بھی ہوئے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق اشرف غنی کی تقریب حلف برداری کے دوران کم از کم دو دھماکے ہوئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور انہوں نے اپنی تقریر بھی جاری رکھی۔

قبل ازیں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان تنازع کے باعث تقریب حلف برداری کو مؤخر کیا گیا تھا حالانکہ غیر ملکی سفارت کاروں کی بڑی تعداد پہنچ چکی تھی جن میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی موجود تھے۔

اشرف غنی نے حلف اٹھالیا—فوٹو:رائٹرز
اشرف غنی نے حلف اٹھالیا—فوٹو:رائٹرز

زلمے خلیل زاد نے دونوں رہنماؤں کے درمیان مصالحت کی کوشش کی جو ناکام ہوئی اور اشرف غنی نے حلف اٹھا لیا جس میں امریکی نمائندہ خصوصی کے علاوہ سفارت کاروں اور نیٹو فورسز کے کمانڈر اسکاٹ ملر نے بھی شرکت کی۔

دوسری جانب عبداللہ عبداللہ نے بھی صدارتی محل میں تقریب منعقد کی اور صدر کے طور پر حلف اٹھایا اور افغانستان کی ‘آزادی کا تحفظ، قومی خود مختاری اور سرحدی سالمیت’ پر زور دیا۔

اشرف غنی کی تقریر کے دوران صدارتی محل میں دو راکٹ بھی فائر کیے گئے جس سے تقریب میں خلل بھی پڑا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور اشرف غنی نے اپنی تقریر جاری رکھی۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی صرف قمیض زیب تن ہے، میں یہاں کھڑا رہوں گا چاہے قربان بھی ہو جاؤں’۔

اشرف غنی نے تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ حکومت میں صرف ہماری سیاسی گروپ سے افراد کو شامل نہیں کیا جائے گا جبکہ دو ہفتوں تک پرانی کابینہ کے ساتھ کام جاری رکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مشاورت کے بعد وسیع حکومت بنائی جائے گی’۔

رپورٹ کے مطابق اشرف غنی، طالبان سے مذاکرات کے لیے کل اپنی ٹیم کو حتمی شکل دیں گے اور طالبان کی جانب سے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر بھی اعلان کریں گے۔

مزید پڑھیں:امریکا-طالبان معاہدہ: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا

افغانستان میں 1996 سے 2001 تک برسر اقتدار رہنے والے طالبان نے امریکا سے معاہدے کے فوری بعد افغان حکومت قید میں موجود ان کے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا جس کو اشرف غنی نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ افغانستان کے دونوں حریف رہنماؤں نے طالبان کے مقابلے میں کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد متوازی صدارتی تقاریب حلف برداری کی تیاریاں کی تھیں۔

افغانستان میں ستمبر 2019 میں ہونے والے متنازع انتخاب کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے افغان قیادت کے طور پر منتخب ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جبکہ الیکشن کمیشن نے اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کردیا تھا۔

امریکا اور طالبان کے درمیان امریکی فورسز کے انخلا سے متعلق معاہدے پر دستخط کے چند روز بعد مذکورہ صورتحال سے سیاسی انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

اشرف غنی کے ایک عہدیدار نے تنازع کے باعث عین وقت پر دونوں رہنماؤں کی تقریب حلف برداری کو مؤخر کرنے کا اعلان کیا تھا اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے ساتھ کئی روز سے جاری مذاکرات کو مزید وقت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: حریف صدارتی تقریبات سے مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے ہیں، طالبان

عہدیدار کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد دونوں سیاسی حریفوں کے مابین ایک معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میڈیا سے بات کرنے کا مجاز نہ ہونے کے باعث شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عہدیدار نے بتایا تھا کہ ہم گزشتہ رات سے عبداللہ عبداللہ کی ٹیم کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کر رہے ہیں جو تاحال جاری ہیں، ہمیں عبداللہ عبداللہ کی ٹیم سے معاہدہ ہوجانے کی امید ہے۔

گزشتہ ماہ طالبان سے معاہدے کے بعد امریکا کی جانب سے انخلا کی تیاریوں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے وعدے کے بعد اس جھگڑے نے افغانستان کی کمزور جمہویت کے لیے خدشات بڑھا دیے ہیں۔

اس حوالے سے حل تلاش کیے جانے کا عندیہ ملتے ہی اشرف غنی کے ترجمان نے ان کی تقریب حلف برداری میں کئی گھنٹے کی تاخیر کا اعلان کیا تھا۔

دوسری جانب عبداللہ عبداللہ کے ترجمان عبید میثم نے کہا کہ زلمے خلیل زاد کی اپیل کے جواب میں عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کی جانب سے حلف برداری کی تقریب مؤخر کرنے کی صورت میں ایسا کرنے کی پیش کش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ممکن ہے کہ طالبان دوحہ معاہدے کی پاسداری نہ کریں، امریکی انٹیلی جنس

واشنگٹن نے بھی خبردار کیا تھا کہ اس تنازع سے امریکی دستبرداری کے معاہدے کو خطرہ ہے جس کے تحت طالبان کو کابل میں مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں اور شہریوں کا کہنا تھا کہ افغان رہنماؤں کے درمیان بڑھتے ہوئے تفرقے کے باعث طالبان کو ان مذاکرات میں بالادستی حاصل ہوجائے گی۔

احمد جاوید نے دونوں رہنماؤں پر زور دیتے ہوئے کا کہنا تھا کہ ‘ایک ہی ملک میں دو صدور کا ہونا ناممکن ہے، ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھیے اور حکومت کے لیے لڑائی کے بجائے اپنے ملک کا سوچیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘حلف اٹھانے سے قبل دونوں کو مذاکرات کرکے حل نکالنا چاہیے’۔

دوسری جانب افغانستان کے عوام نے عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کی تقاریب پر زیادہ دلچسپی نہیں اور نہ ہی انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

سیاسی تجزیہ کار عطانوری کا کہنا تھا کہ ‘ہٹ دھرمی سے بین الافغان مذاکرات میں حکومت کی پوزیشن پر برے اثرات پڑیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر وہ مذاکرات کی میز پر جیت کے خواہاں ہیں تو اتحاد آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے’۔

نوجوان نعمان فارمولی نے کہا کہ ‘انہوں نے مہم کے دوران وعدے کیے تھے لیکن اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا، انہوں نے امن قائم کرنے اور ملک میں روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ناکام ہوئے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم انہیں دیکھتے ہوئے تھک گئے ہیں’۔

سیکیورٹی میں اضافہ

صدارتی تقاریب کابل میں سخت سیکیورٹی میں منعقد ہوں گی جہاں دونوں حریفوں کی حلف برداری سے گھنٹوں قبل سڑکیں بند ہیں جبکہ متعدد چیک پوائنٹس بھی قائم کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان رہنما ملا برادر سے ٹیلی فونک رابطہ

صدارتی محل کے میدانوں میں قائم دو الگ الگ مقامات پر درجنوں حامی حلف برداری کے منتظر ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی قیمت حکومت کو ادا کرنی پڑے گی جو دوحہ مذاکرات ختم ہونے کے بعد پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔

خیال رہے کہ فروری2020 میں افغانستان کے الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کیا تھا لیکن ان کے سخت ترین حریف عبداللہ عبداللہ نے کہا تھا کہ وہ اور ان کے اتحادی انتخاب جیتے ہیں اور اصرار کیا کہ حکومت وہ ہی بنائیں گے۔

اس سلسلے میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے پیر کے روز حلف برداری کے دعوت نامے تقسیم کر دیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں