کورونا وائرس کی وجہ سے امریکی وزیر دفاع نے پاکستان، بھارت کا دورہ ملتوی کردیا

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2020
مارک ایسپر نے 16 مارچ سے 20 مارچ تک پاکستان، بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کا دورہ کرنا تھا — فائل فوٹو:رائٹرز
مارک ایسپر نے 16 مارچ سے 20 مارچ تک پاکستان، بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کا دورہ کرنا تھا — فائل فوٹو:رائٹرز

واشنگٹن: کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کی وجہ سے امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے پاکستان، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کا اہم ترین دورہ منسوخ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مارک ایسپر کا 16 مارچ سے 20 مارچ تک خطے کا دورہ کرنے کا ارادہ تھا جس میں افغان امن عمل کو فروغ دینے کے لیے بات چیت کی جانی تھی۔

ان کی 19 مارچ کو اسلام آباد آمد متوقع تھی جہاں وہ رات قیام بھی کرتے۔

ان کے دورے کے دوران دیگر مقامات میں ازبکستان اور ممکنہ طور پر کابل بھی شامل ہے تاہم افغان دارالحکومت کابل کے دورے کے بارے میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد طالبان افغان حکومت میں جگہ بنا لیں گے'

پینٹاگون کی ترجمان الیسا فرح کا کہنا تھا کہ 'کئی انتباہ ملنے کے بعد سیکریٹری دفاع نے اپنا سفر ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ دورہ بعد میں کیا جائے گا'۔

دسمبر میں چین سے سامنے آنے والے خوفناک وائرس نے اب تک دنیا بھر میں ایک لاکھ 20 ہزار لوگوں کو متاثر کردیا ہے اور 4 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

اس وبا کی وجہ سے واشنگٹن کو اپنے تمام غیر ملکی دوروں پر نظر ثانی کرنی پڑ گئی ہے تاکہ ان کے حکام وائرس سے متاثر نہ ہوں۔

مارک ایسپر کا معطل ہونے والے دورے کا براہ راست تعلق امن معاہدے سے تھا جسے حتمی شکل دینے میں پاکستان نے مدد کی تھی اور واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسلام آباد اس کے نفاذ میں بھی مدد کرے۔

دوحہ میں ہونے والے معاہدے میں بین الافغان مذاکرات 10 مارچ سے ہونے تھے جس میں طالبان اور افغان حکومت سمیت دیگر دھڑوں کی بھرپور شرکت ہونی تھی تاہم افغانستان میں پیچیدہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے مذاکرات معطل ہوگئے ہیں۔

امریکا-طالبان معاہدے کا ایک اور اہم نقطہ قیدیوں کا تبادلہ تھا جسے بھی معطل کردیا گیا تاہم یہ جلد ہوسکتا ہے۔

ابتدائی طور پر افغان حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کردیا تھا تاہم افغان صدر اشرف غنی نے پیر کے روز اشارہ دیا کہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے فرمان پر دستخط کر دیے

طالبان رہنماؤں نے پہلے ہی ان کے پاس قید ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی کا اظہار کردیا ہے۔

واشنگٹن میں پالیسی بنانے والوں کو لگتا ہے کہ پاکستان، طالبان پر ان کے کیے گئے وعدوں پر عمل در آمد کے لیے اثر انداز ہوسکتا ہے اور وہ اسلام آباد سے ایسا ہی چاہتے ہی جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی بین الافغان مذاکرات کے لیے منساب صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دریں اثنا امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد، جنہوں نے طالبان سے امن معاہدے کے لیے مذاکرات بھی کیے تھے، کو اب کابل میں سیاسی تنازع کو روکنے کا کام بھی سونپ دیا گیا ہے۔

پیر کے روز کابل میں دو صدور، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی تقریب میں حلف برداری ہوتے دیکھی گئی۔

دونوں کی جانب سے قانونی حکمرانی کا دعویٰ کیا گیا ہے اور ایک دوسرے کو ماننے سے انکار کیا گیا ہے۔

اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب کے دوران متعدد راکٹ صدارتی محکم کے باہر گرے جس کی وجہ سے تقریب میں عارضی خلل آیا۔

طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں تھے۔

جہاں شک عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کی جانب جانے لگا امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے دونوں جانب سے مزید کشیدگی نہ کرنے کا کہا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے گزشتہ ہفتے زیادہ تر وقت صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان ایک وسیع طور پر قبول کی گئی حکومت کے لیے معاہدے میں مدد کے لیے گزارا اور ہم مزید معاونت فراہم کرتے رہیں گے'۔

واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ یہ سیاسی تنازع تشدد کی شکل اختیار کرجائے گا جس کی وجہ سے امریکا کا افغانستان سے انخلا کا منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوجائے گا۔

زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ 'دونوں رہنماؤں نے واضح کیا کہ وہ سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور امن اور مصالحت ہی ترجیح ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں