قیدیوں کی مشروط رہائی افغان امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے، طالبان

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2020
طالبان کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدے میں شرط موجود نہیں تھی — فائل فوٹو: اے پی
طالبان کے مطابق قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدے میں شرط موجود نہیں تھی — فائل فوٹو: اے پی

افغان طالبان نے کہا ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے چند طالبان قیدیوں کی رہائی کو 'مشروط' کرنا دراصل امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدے میں کسی قسم کی کوئی شرط موجود نہیں تھی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق طالبان کے ترجمان کا بیان اس وقت سامنے آیا جب افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے سناجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے چند طالبان قیدیوں کی رہائی کے پیپر پر دستخط کردیے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا عمل شروع

انہوں نے مزید کہا کہ افغان صدر کا اقدام دراصل طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کے آغاز کے لیے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 5 سرکاری حکام نے تصدیق کی تھی کہ اتبدائی طور پر ایک ہزار طالبان کو رواں ہفتے رہا کیے جانے کا امکان ہے تاکہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات کا عمل شروع ہو۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے قیدیوں کی مشروط رہائی پر آمادگی کا اظہار نہیں کیا تھا، اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے تو یہ 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے کے خلاف ہوگا'۔

افغان صدر کے ترجمان نے کہا کہ اگر طالبان افغان فورسز پر حملے سے باز رہتے ہیں تو مزید 5 ہزار طالبان قیدیوں کو چھوڑنے پر غور کریں گے۔

مزید پڑھیں: طالبان قیدیوں کی رہائی کا طریقہ کار طے پایا گیا، افغان صدر

افغان صدر کے اقدام پر دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ 'معاہدے میں واضح درج ہے کہ افغان حکومت مذاکرات کے آغاز سے قبل 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی'۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے دوسرے ہی روز یکم مارچ کو افغان صدر نے اپنے بیان میں طالبان قیدیوں کی رہائی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق شق کو نہیں مانتے۔

اشرف غنی نے کابل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘افغان حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا’۔

افغانستان میں امن کے قیام کے لیے اس معاہدے کی جزوی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں 5 ہزار طالبان جنگجوؤں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔

مزید پڑھیں: حریف صدارتی تقریبات سے مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے ہیں، طالبان

افغان صدر کا کہنا تھا کہ ‘یہ امریکا کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے'۔

جس پر طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ‘اگر ہمارے 5 ہزار قیدی رہا نہیں ہوئے تو بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے، اس تعداد میں 100 یا 200 کی کمی بیشی ہو سکتی ہے جس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے’۔

یاد رہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدہہوا تھا جس پر امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ ملا عبدالغنی نے دستخط کیے تھے۔

یاد رہے کہ امریکا نے بھی طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے تحت پہلا قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان سے افواج کا انخلا شروع کردیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں