روشن پروگرام کیس میں شرجیل میمن کی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 12 مارچ 2020
شرجیل انعام میمن سندھ کے وزیر رہ چکے ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز
شرجیل انعام میمن سندھ کے وزیر رہ چکے ہیں — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کسی ملزم کو مصدقہ ثبوت ہونے کے باوجود تب تک گرفتار نہیں کرسکتا جب تک اس بات کو یقین کرنے کی وجوہات نہ ہوں کہ ملزم تعاون نہیں کررہا یا مفرور ہوسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس غلام اعظم قمبرانی پر مشتمل بینچ کی جانب سے یہ ریمارکس روشن پروگرام کیس میں سندھ کے سابق وزیر شرجیل انعام میمن کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی سماعت کے دوران کیے گئے جیسے منظور کرلیا گیا۔

خیال رہے کہ مذکورہ کیس میں الزام ہے کہ روشن سندھ پروگرام کے تحت سولر لائٹ کی تنصیب کے ٹھیکے میں بے ضابطگیاں کی گئیں۔

مزید پڑھیں: کرپشن کیس: شرجیل میمن ضمانت پر جیل سے رہا

دوران سماعت نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے بتایا کہ بیورو کے پاس شرجیل انعام میمن سے جڑے الزامات سے متعلق مصدقہ ثبوت ہیں کہ انہوں نے ایک من پسند کمپنی کو منصوبے کا ٹھیکہ دینے کے لیے اپنی سرکاری حیثیت کا غلط استعمال کیا اور رشوت وصول کی۔

انہوں نے کہا کہ ٹھیکے دار کمپنی ودود انجینئرنگ نے 9 کروڑ روپے بطور رشوت دیے جس میں سے 77 لاکھ روپے شرجیل میمن کو ادا کیے گئے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 'اگر آپ کے پاس ان (شرجیل میمن) کے خلاف کافی مواد ہے تو پھر آپ کو احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے، وہاں انہیں پیش کرنا چاہیے اور ان ثبوتوں کی روشنی میں ٹرائل کورٹ سے زیادہ سے زیادہ سزا حاصل کرنی چاہیے'۔

عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ نیب کس طرح کک بیکس کو صوبائی وزیر صحت سے جوڑ رہا ہے تو اس پر پراسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ تفتیشی افسر نے دیہی ترقیاتی اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل کو گرفتار کیا جنہوں نے اپنے جرم کو قبول کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ شرجیل انعام میمن نے روشن پروگرام پروجیکٹ میں 77 روپے کے کک بیکس وصول کیے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کا طریقہ کار ہے، نیب نے شروع میں مرکزی ملزم کو گرفتار کیا ان کا بیان ریکارڈ کیا تاکہ دیگر کو اس میں شامل کیا جائے اور آخر میں مرکزی ملزم کو معاف کردیا۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کے کیمیکل فنانشل افسر اسلم مسعود نے نیب کے سامنے ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ اشرف لغاری نے شرجیل میمن کی طرف سے بینک سے نقد رقم نکالی تھی۔

تاہم تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اشرف لغاری سے اس معاملے میں تفتیش نہیں ہوسکی کیونکہ وہ جب سے مفرور ہیں۔

اس پر عدالت عالیہ نے حیرانی کا اظہار کیا کہ اس حقیقت کے باوجود کے شرجیل میمن 2 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہ چکے ہیں نیب انہیں گرفتار کرنے میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روشن سندھ پروگرام کیس: شرجیل میمن کی عبوری ضمانت منظور

ساتھ ہی عالت نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا آپ ان کی رہائی کا انتظار کر رہے تھے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کیا جاسکے؟

واضح رہے کہ شرجیل میمن 25 اکتوبر 2017 سے 25 جون 2019 تک جیل میں رہے تھے۔

عدالتی استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ فروری 2019 میں مذکورہ معاملے میں تفتیش کا اختیار دیا گیا اور شرجیل میمن کا اس کیس میں کردار اسی سال اکتوبر میں سامنے آیا۔

علاوہ ازیں جب استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ شرجیل میمن نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات شیئر نہیں کیں تو اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تفتیشی افسر اس طرح کی معلومات وفاقی بورڈ آف ریونیو سے کیوں حاصل نہیں کرتا۔

تبصرے (0) بند ہیں