نزلہ، زکام جیسی علامات کے ساتھ کراچی کے ہسپتالوں میں عوام کا رش

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2020
کورونا وائرس وبا کے سندھ میں پھیلنے کے ساتھ ہی جعلی خبروں کی وجہ سے گھبرائے ہوئے شہریوں کی ہسپتالوں میں بھیڑ لگ گئی۔ - فائل فوٹو:فیس بک
کورونا وائرس وبا کے سندھ میں پھیلنے کے ساتھ ہی جعلی خبروں کی وجہ سے گھبرائے ہوئے شہریوں کی ہسپتالوں میں بھیڑ لگ گئی۔ - فائل فوٹو:فیس بک

کراچی: کورونا وائرس وبا کے سندھ میں پھیلنے کے ساتھ ہی جعلی خبروں کی وجہ سے گھبرائے ہوئے شہریوں کی ہسپتالوں میں بھیڑ لگ گئی۔

گزشتہ دو روز میں ڈان اخبار کے صحافی نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (ڈی یو ایچ ایس) کے اوجھا کیمپس، ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال، انڈس ہسپتال اور آغا خان ہسپتال کا دورہ کیا جہاں دیکھا گیا کہ کئی کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرانے کے لیے کئی پریشان شہریوں کی بھیڑ تھی۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا تھا کہ زیادہ تر شہری اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ اسکریننگ کے معیار پر پورا نہیں اترتے اور انہیں عام پریکٹشنر سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے میں اوجھا کیمپس میں کورونا وائرس کی علامات کے ساتھ ہر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کا رش دیکھا گیا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے خلاف جسم کیسے ردعمل ظاہر کرتا ہے؟

اوجھا میں آئی سولیشن یونٹ کی انچارج ڈاکٹر شوبھا لکشمی کا کہنا تھا کہ 'ہم یومیہ 40 سے 50 مریضوں سے بڑھ کر 400 مریض پر آگئے ہیں، ہمارے پاس موجود کٹس کی تعداد محدود ہیں اور سب کا ٹیسٹ نہیں کیا جاسکتا، کئی افراد مایوس ہوکر لوٹ جاتے ہیں جب انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اسکریننگ کے معیار پر پورا نہیں اترتے'۔

کیمپس میں عوام کو سبز رنگ کے سرجیکل ماسکس میں دیکھا گیا جو ایک دوسرے سے احتیاط برتتے نظر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت تعداد بہت کم ہے تاہم اگر یہ بڑھ گئی تو ہمیں مزید میڈیکل اسٹاف اور تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوگی، اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ جو ڈاکٹر ایمرجنسی سروس نہیں کر رہے انہیں کورونا وائرس کی ڈیوٹی پر تعینات کیا جائے'۔

انڈس ہسپتال میں بھی اس طرح کی صورتحال دیکھی گئی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ہسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر اختر عزیز خان کا کہنا تھا کہ تقریباً 150 افراد روزانہ کی بنیاد پر وائرس کا ٹیسٹ کرانے آرہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے لیے اسکریننگ کا عمل کیا جاتا ہے تاکہ ٹیسٹ کٹس ضائع نہ ہوں، لوگوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ غلط معلومات یا سوشل میڈیا ہے جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے'۔

امراض انفیکشنز کے ماہر اور لیب ورکرز کا کہنا تھا کہ اس وقت توجہ خوف پھیلانے پر ہے، اب تک کوئی یہ بات مؤثر انداز میں عوام تک نہیں پہنچائی گئی کہ کون ٹیسٹ کے لیے بہتر ہے، ہر وہ شخص جسے فلو ہے، اسکریننگ کے معیار پر پورا نہیں اترتا'۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو تعطیلات نہ سمجھا جائے، یاسمین راشد

ڈاؤ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عزیز اللہ خان نے اسکریننگ کے معیار کے بارے میں بتایا کہ 'مریض سے ان کے اور ان کے رابطے میں لوگوں کے سفری معلومات کے حوالے سے متعدد سوالات کیے جائیں گے اور اگر ڈاکٹر نے کورونا وائرس کا شبہ مسترد کردیا تو مریض کو واپس بھیج دیا جائے گا'۔

حفاظتی کٹس کی قلت

ایک سب سے بڑا مسئلے کا تقریباً تمام ماہرین، نرسز اور لیبارٹری کے ماہرین نے کیا وہ پی پی ای کٹس کی قلت کا تھا۔

خصوصی لباس اور آلات پر مشتمل پی پی ای کٹس میں ایک دفعہ استعمال ہونے والے ماسکس، گاؤن، ہوڈز، دستانوں، جوتے کے کوورز، فیس شیلڈز اور آنکھوں کی حفاظت کے لیے اشیا شامل ہوتی ہیں جنہیں اس مرض سے نمٹنے والے ملازمین اور دیگر صحت حکام پہنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نہ صرف اوجھا کیمپس میں بلکہ دیگر ہسپتالوں میں بھی مزید پی پی ای کٹس کی ضرورت ہے جو غائب ہورہی ہیں اور اس وقت کئی صحت حکام اپنی جیب سے اسے خرید رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے سندھ حکومت اور عالمی ادارہ صحت سے درخواست کی ہے تاہم اس پر ابھی کام نہیں ہوا، ہمیں مزید تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، ایسے افراد کو اس بحران میں کام کرنے کو تیار ہوں'۔

عوامی احساس کی کمی

ڈاکٹر شوبھا لکشمی کا کہنا تھا کہ چند مریضوں کو گھر پر آئی سولیشن کے لیے بھیج دیا گیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کا اس پر عمل کرنے کی نگرانی کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: ملکی معیشت پر منفی اثرات کے تدارک کیلئے اہم فیصلے

سکھر کے آئی سولیشن کیمپ سے واپسی پر مشاہدات بتاتے ہوئے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سنیل دودانی نے کہا کہ 'وہاں بہت زیادہ خوف و ہراس پایا گیا تھا جبکہ طبی عملہ بھی بہت پریشان ہے تاہم امید کرتا ہوں کہ ہیلتھ کیئر کمیونٹی، انتظامیہ، میڈیا اور زائرین کرام کے ساتھ آگاہی سیشنز کے بعد حالات میں بہتری آئے گی'۔

انہوں نے کہا کہ 'لوگوں کو عوامی احساس نہیں ہے اور وہ حالات کو خراب کررہے ہیں، سکھر میں اس آئی سولیشن کیمپ میں موجود افراد ہدایات پر عمل نہیں کررہے ہیں، پروٹوکول کے تحت، انہیں انفرادی طور پر رکھا گیا ہے اور ایک کمرے میں ایک شخص درج کیا گیا ہے تاہم لوگ کمروں میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں'۔

سوشل میڈیا پر جعلی خبریں

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ سوشل میڈیا پر پھیلنے ولی جعلی خبریں صحت حکام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر عزیز اللہ خان کا کہنا تھا کہ 'سوشل میڈیا نے کورونا وائرس کے لیے بہت برا کردار ادا کیا ہے، فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ پر جو چیزیں شیئر کی جاتی ہیں ان پر کچھ ریگولیشنز کی ضرورت ہے'۔

حیرت انگیز طور پر سول اور جناح ہسپتالوں میں کئی رکشہ ڈرائیورز اندر جانے سے انکار کردیتے ہیں اور لوگوں کو باہر ہی چھوڑ رہے ہیں۔

ایک رکشہ ڈرائیور کا کہنا تھا کہ 'وہاں کئی بیمار لوگ ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ کسے کورونا وائرس ہے'۔

اسی طرح آن لائن ٹیکسی سروس استعمال کرنے والے اوجھا کیمپس کے ملازمین کا کہنا تھا کہ کئی ڈرائیورز یہاں آنے سے منع کردیتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ کوئی کورونا وائرس سے متاثرہ شخص ان کی گاڑی میں بیٹھ جائے گا۔

ڈاکٹر عزیز اللہ خان کا کہنا تھا کہ 'واٹس ایپ پر شیئرز دیکھ کر ہمیں کئی کالز موصول ہوتی ہیں اور لوگ اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں کورونا ہے تاہم عام عوام اسکریننگ کے معیار کو اب بھی نہیں سمجھ سکی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی ویکسین کا دعویٰ کرکے عوام کو لوٹنے والا ڈاکٹر گرفتار

آئی سولیشن رومز سے عوام کے خوف کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہسپتالوں میں آئی سولیشن رومز چکن پوکس کے کیسز کے لیے قائم کیے گئے تھے اور یہ اب ہمارے یے نیا تجربہ ہے، کورونا وائرس سے ہسپتالوں میں نمٹا جاسکتا ہے اگر ڈاکٹر، میڈیکل اسٹاف اور مریض پروٹوکولز پر عمل کریں تاہم عوام کا رویہ دیکھ کر بہتر یہی ہے کہ جب تعداد بڑھنے لگے تو ایک علیحدہ آئی سولیشن کیمپ بنایا جائے، ہوٹل مالکان کو بھی آئی سولیشن کی سہولت دینی چاہیے'۔

زیادہ کام

اضافی انفارمیشن کی وجہ سے عام آبادی میں اضطراب پیدا ہوا ہے جبکہ کورونا وائرس سے سب سے آگے کھڑے ہوکر نمٹنے والے افراد میں ذہنی دباؤ کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ورکرز پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ وہ زیادہ کام کر رہے ہیں اور ان کی مدد کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر سونیل دودانی نے پاکستان کے تمام ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'صرف اضافی افراد کی نہیں بلکہ اضافی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، بنیادی تربیت انفیکشن کی روک تھام کے اصول اور کنٹرول ضروری ہیں، کسی بھی فرد کورونا وائرس کے مریض کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کو ہاتھوں میں حفظان صحت اور پی پی ای کے مناسب انتخاب اور استعمال کی تکنیک پر اچھی طرح سے عبور حاصل ہونا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انفیکشن اور اس کے نتائج سے سخت خوف، بنیادی طور پر آگاہی کی کمی کی وجہ سے ہے، سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کام کرنے سے انکار کررہے ہیں، اس مسئلے کے فوری حل کی ضرورت ہے'۔

انہوں نے صحت کی خدمات دینے والوں اور عوام تک آگہی پھیلانے میں ناکامی کی نشاندہی کی اور کہا کہ 'عوام کو جھوٹی خبریں دکھانے کی جگہ اسکریننگ کے معیار کو میڈیا کے ذریعے عوام تک آسان زبان میں پہنچانا چاہیے تاکہ ہسپتالوں میں رش نہ لگے'۔

ڈاکٹر لکشمی کا کہنا تھا کہ 'چند ڈاکٹروں اور صحت حکام کو غیر ایمرجنسی ڈیوٹیز سے ہٹا کر اس طرف لانے کی ضرورت ہے، کورونا وائرس دیکھنے والے ڈاکٹر اور نرسز 6 سے 8 گھنٹے کام کر رہے ہیں اور جبکہ پی پی ای کٹ پہن کر کام کرنا آسان نہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں