اسلام آباد ہائیکورٹ کا نیب حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2020
چیف جسٹس اطہر من اللہ—فائل فوٹو: فیس بک
چیف جسٹس اطہر من اللہ—فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالت عالیہ کے ججوں کو بدنام کرنے اور زیر التوا کارروائی کو تعصب کا نشانہ بنانے کی کوشش پر قومی احتساب بیورو (نیب) کے افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا عندیہ دے دیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں حسن اورنگزیب پر مشتمل عدالت عالیہ کے ڈویژن بینچ نے 17 مارچ کو سابق وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس اکرم خان درانی کی ضمانت قبل از گرفتاری سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران جاری اپنے حکم میں یہ بات بتائی۔

مزید پڑھیں: 'عوام کے اعتماد کے لیے ججز کا احتساب بھی ضروری ہے'

واضح رہے کہ نیب نے ایک مہر بند لفافے میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس پر جلی حرفوں میں ’خفیہ‘ لکھا ہوا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے تحریری حکم میں کہا گیا کہ ’اس رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا کہ درخواست گزار (اکرم درانی) نے ڈسٹرکٹ کورٹ اسلام آباد کے ججوں اور اس عدالت کے عہدیداروں / عملے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سرکاری عہدیداروں کو سرکاری رہائش گاہ الاٹ کرکے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا‘۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ الوکیشن رولز 2002 کے ضابطہ 6 (7) کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو الاٹمنٹ دیے گئے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اور تفتیشی افسر سے پوچھا گیا کہ کیا عدالت عالیہ کے ججوں کو دی جانے والی الاٹمنٹ غیر قانونی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ الاٹمنٹ غیر قانونی تھیں اور وہ 2002 کے رولز 6 (7) کے تحت دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘ججز احتساب سے مستثنیٰ نہیں، سخت ترین احتساب ہونا چاہیے‘

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ نیب حکام فہرست میں ججوں کے نام شامل کرنے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دے سکے کہ آیا انہیں الاٹمنٹ 2002 کے قواعد 6 (7) کے مطابق تھیں۔

عدالتی حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ ’تفتیشی افسر سے پوچھا گیا کہ وہ درخواست گزار کی گرفتاری کیوں نہیں مانگتے جبکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججوں اور اس عدالت کے عملے / عہدیداروں کو آؤٹ آف ٹرن الاٹمنٹ ہوئیں اور انہوں نے اگست 2014 میں اس عدالت میں اجلاس بھی منعقد کیا؟ اس سلسلے میں نیب کے پاس کوئی قابل تعریف وضاحت نہیں ہے‘۔

اس میں کہا گیا کہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اور تفتیشی افسر اس رپورٹ کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ بتانے میں ناکام رہے ہیں۔

مزیدپڑھیں: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'جج اور کوئی شخص احتساب سے بالاتر نہیں'

نیب کی جانب سے پیش کردہ عدالت میں زیر التوا کارروائی کو تعصب کا نشانہ بنانے کی کوشش میں سنگین سوالات اٹھائے گئے اور تفتیشی افسر وضاحت کرنے میں ناکام رہا۔

عدالت نے کہا کہ ’یہ نوٹ کیا جائے کہ ہم نے مستقل طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہے'۔

عدالت عالیہ کے بینچ نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی حیثیت سے ہمیں جوابدہ ہونا چاہیے لیکن عدالتی کارروائی کو متعصبانہ کارروائی کے ساتھ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

اس ضمن میں مزید کہا گیا کہ نیب کی تحریری رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ الاٹمنٹ 25 اگست 2014 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں منعقدہ اجلاس کے نتیجے میں کی گئیں اور اگر ایسا ہے تو درخواست گزار کی گرفتاری کس طرح جائز ہوگی؟

یہ بھی پڑھیں: 'مجھے عدالتوں سے انصاف کی امید نہیں'

عدالت نے نیب کو ہدایت کی کہ وہ مکمل ریکارڈ کے ساتھ ایک تفصیلی رپورٹ پیش کریں جس میں 25 اگست 2014 کو ہونے والے اجلاس کی روداد شامل ہو۔

عدالت عالیہ کے حکم میں کہا گیا کہ ’نیب یہ بھی بتائے گا کہ ذمہ دار شخص کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاسکتی‘۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ماتحت عدالتوں کے ججوں اور افسران کو مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے کی جانے والی الاٹمنٹ کی تفصیلات انتظامیہ سے طلب کرلیں۔

عدالت عالیہ کے رجسٹرار کی جانب سے ہاؤسنگ اینڈ ورکس سیکریٹری کو لکھے گئے خط میں ’ججز / عدلیہ کے افسران کو رہائش کی غیر قانونی الاٹمنٹ‘ کے بارے میں کہا گیا کہ ’چیف جسٹس کے علم میں آگیا ہے کہ ججوں / افسران کو رہائش، الوکیشن رولز 2002 اور سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ کے متعلقہ فیصلوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے‘۔

ہاؤسنگ اور ورکس سیکریٹری کو یاد دلایا جاتا ہے کہ ’مذکورہ فیصلے اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی رہائش کی الاٹمنٹ نہیں کی جانی چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: مفت سہولیات دیکر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ اسکول جانا ہے یا مدارس، سپریم کورٹ

مراسلے میں مزید کہا گیا کہ اس کے علاوہ ماضی میں کی جانے والی غیر قانونی الاٹمنٹ کی ایک فہرست، وجوہات کے ساتھ، ابتدائی تاریخ میں اس عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

واضح رہے کہ 2015 میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے غیر شفاف طریقے سے عدالتی افسران اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے عملے کو سرکاری مکانات کی الاٹمنٹ کی تھی جس میں اس وقت کے چیف جسٹس محمد انور خان کے بھائی اور وہ حکام بھی شامل تھے جنہیں غیرشفاف طریقے سے اسلام آباد ہائیکورٹ لایا گیا۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے ان کی تقرریوں کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

مذکورہ الاٹمنٹ وزارت قانون کے اس مشورے کی خلاف ورزی کے تحت کی گئی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ جنرل ویٹنگ لسٹ کی پابندی سے متعلق عدالت عظمیٰ کا فیصلہ عدالت عالیہ سمیت تمام عدالتوں پر عائد ہوتا ہے اور اس کے مطابق یہ الاٹمنٹ سنیارٹی کی بنیاد پر صرف سرکاری اہلکاروں کو کی جا سکتی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ رہائشی الوکیشن رولز 2002 کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ملازمین کو سرکاری مکانات کی الاٹمنٹ نہیں کی جا سکتی۔


یہ خبر 19 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں