چین کے بعد جنوبی کوریا نے کورونا پر کیسے قابو پایا؟

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2020
آغاز میں جنوبی کوریا میں کورونا کے زیادہ مریض سامنے آئے تھے—فوٹو: اے پی
آغاز میں جنوبی کوریا میں کورونا کے زیادہ مریض سامنے آئے تھے—فوٹو: اے پی

کورونا وائرس اس وقت یورپی ممالک، امریکا اور کچھ ایشیائی ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے تاہم حیران کن طور پر جنوبی کوریا جیسے ملک سے گزشتہ 2 ہفتوں سے نئے کیسز سامنے آنے کی رفتار کم ہوچکی ہے۔

جنوبی کوریا کا شمار چین کے بعد اس ملک میں کیا جا رہا تھا جہاں تیزی سے کورونا وائرس پھیل رہا تھا اور چین کے بعد ہی وہاں کورونا کیسز تیزی سے آنا شروع ہوئے تھے۔

فروری کے اختتام اور مارچ کے آغاز تک جنوبی کوریا سے کورونا کیسز سامنے آنے کی رفتار سب سے زیادہ تھی اور چین کے بعد جنوبی کوریا ہی سب سے زیادہ متاثرہ ملک تھا لیکن بعد میں ایران سامنے آیا اور وہاں تیزی سے نئے کیس سامنے آنے لگے۔

مارچ کے پہلے ہفتے تک جنوبی کوریا کورونا کیسز کے تیزی سے بڑھنے کے حوالے سے چین سے دوسرے نمبر پر تھا مگر مارچ کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں ہی صورتحال تبدیل ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی کوریا سے نئے کیسز کے آنے کی رفتار کئی ممالک سے سست ہونے لگی۔

اور یوں محض کچھ ہی ہفتوں میں جنوبی کوریا نے اپنے ملک میں وبا کے تیزی سے پھیلنے پر قابو پالیا اور اب 17 مارچ کے دن جنوبی کوریا سے مجموعی طور پر 50 سے بھی کم نئے کیسز سامنے آئے تھے، اس سے قبل فروری کے اختتام تک وہاں سے یومیہ 700 سے 900 کیسز سامنے آ رہے تھے۔

خیال کیا جا رہا تھا کہ چین کے کسی بھی دوسرے ملک کو کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے میں بہت وقت لگے گا مگر جنوبی کوریا نے چین سے بھی کم وقت میں وائرس پر قابو پاکر تمام اندازوں کو غلط ثابت کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: چین کے بعد جنوبی کوریا، ایران سب سے زیادہ متاثر

اگرچہ اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ جنوبی کوریا میں کورونا کی شدت کم ہوگئی تاہم اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں سے کیسز کے سامنے آنے کی رفتار کافی کم ہوگئی ہے۔

طبی تحقیقاتی جریدے سائنس میگ نے جنوبی کوریا میں کورونا کیسز کی کمی پر ایک تحقیقاتی مضمون شائع کیا، جس میں ان چند اقدامات کا ذکر کیا گیا جنہیں اختیار کرکے جنوبی کوریا نے وبا پر قابو پایا۔

مضمون میں بتایا گیا کہ جنوبی کوریا نے دیگر کئی ممالک کی طرح بڑے پیمانے پر لاک ڈون بھی نہیں کیا اور نہ ہی تمام شہریوں کو گھروں میں بند کیا لیکن اس کے باوجود حکومت کورونا جیسی وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی۔

رہورٹ میں جنوبی کوریائی حکومت کے عہدیداروں اور وبائی امراض کے ماہرین سمیت ٹیکنالوجی ماہرین کے حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ جنوبی کوریا نے وبا سے نمٹنے کے لیے اس وقت ہی تیاریاں شروع کردی تھیں جب مذکورہ وائرس صرف چین تک محدود تھا۔

جنوبی کورین حکام کے مطابق چین میں تیزی سے وبا کے پھیلنے کے بعد وہاں کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے حکومت کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے والی کٹ کی تیاری کرنا شروع کردی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی کورین ماہرین نے چینی ماہرین کی جانب سے کورونا وائرس کے حوالے سے شائع کی جانے والی معلومات اور تحقیقات کا تجزیہ کرکے نہ صرف کم وقت میں معیاری کٹس کی تیاری کرلی بلکہ انہوں نے دیگر انتظامات کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرنا شروع کردی۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق بظاہر جنوبی کورین حکومت نے کورونا وائرس کی کٹ تیار کرنے، قرنطینہ کا بہترین نطام بنانے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے عالمی وبا کو پھیلنے سے روکا۔

حکام نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کرنا یا لوگوں کو گھروں تک محدود کرنا مسئلے کا حل نہیں تھا اس لیے حکومت نے کم وسائل اور کٹ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ کرنے کو یقینی بنانے سمیت قرنطینہ کے نظام کو بہتر بنایا اور قرنطینہ میں ہر اس شخص کو بند کردیا گیا جس کی صحت کے حوالے سے تھوڑا سا بھی شبہ تھا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس، جنوبی کورین بینک کا تمام نوٹ قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوبی کوریا نے انتہائی کم وقت میں محض 5 ہزار 200 کٹس کے ساتھ تقریباً 27 لاکھ افراد کے ٹیسٹ کیے اور وہ پہلا ملک بن گیا جس نے ہر ایک لاکھ پر زیادہ سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ کیے۔

جنوبی کورین حکام کے مطابق انہوں نے قرنطینہ کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک کردیا تھا اور قرنطینہ کے ایپس اور جی پی ایس سسٹم کے ذریعے نگرانی کی گئی تاکہ وہاں سے کوئی نکل نہ سکے اور وہاں کوئی غیرمتعلقہ شخص جا نہ سکے۔

اسی حوالے سے عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ نےبتایا کہ جنوبی کورین حکام کے مطابق اس بات کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور ایپس کی مدد سے یقینی بنایا گیا کہ شہریوں کو موبائل فون پر پیغامات بھیجے جائیں کہ فلاں فلاں علاقوں میں جانے سے گریز کیا جائے۔

حکام نے بتایا کہ حکومت نے جنوبی کوریا کے ہر فون پر حفاظتی پیغامات بھیجے اور لوگوں کو ہدایات دیں کہ وہ کن علاقوں میں جانے سے گریز کریں اور وہ اپنی حفاظت کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔

حکومتی ارکان اور مابر وبائی امراض کے مطابق جنوبی کوریا کے ایئرپورٹس پر بھی نگرانی کا بہتر نظام بنا کر اسے ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک کردیا گیا اور ہر مسافر کی کڑی نگرانی کرنے سمیت اسے محفوظ رہنے اور محفوظ جگہ پر پہنچنے کے ایپس کے ذریعے طریقے بھی بتائے گئے۔

اگرچہ جنوبی کوریا کےحکام کورونا وائرس کے خلاف اپنی جدوجہد کو کامیابی نہیں سمجھتے تاہم دنیا کے دیگر ممالک کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جنوبی کوریا وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا۔

خیال رہے کہ 19 مارچ کی سہ پہر تک جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 8 ہزار 565 تک جا پہنچی تھی اور وہ اٹلی، ایران، اسپین، فرانس، جرمنی اور امریکا کے بعد زیادہ مریضوں والا ملک تھا۔

اس سے قبل مارچ کے آغاز تک جنوبی کورویا چین کے بعد سے زیادہ مریضوں والا ملک تھا، تاہم گزشتہ 2 ہفتوں سے وہاں سے سامنے آنے والے کیسز کی تعداد انتہائی کم ہے۔

عالمی ادارہ صحت بھی پہلے ہی خبردار کر چکا ہے یورپ اور امریکی ممالک میں کورونا وائرس تیزی سے پھیلے گا تاہم عالمی ادارہ صحت نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سمیت جنوبی ایشیائی ممالک کو بھی وائرس سے نمٹنے کے لیے مزید سخت اقدامات اٹھانے کے لیے خبردار کیا تھا۔

19 مارچ کی سہ پہر تک دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 2 لاکھ 19 ہزار تک جا پہنچی تھی جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 8 ہزار 810 تک جا پہنچی تھی۔

کورونا کے مریض چین کے بعد سب سے زیادہ اٹلی میں ہیں جب کہ چین کے بعد اٹلی دوسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

19 مارچ کی شام تک پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 377 تک جاپہنچی تھی جب کہ وہاں 2 ہلاکتیں بھی ہوچکی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں