پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سپریم کورٹ میں جسٹس مظاہر نقوی کی تعیناتی کے مخالف

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2020
4 مارچ کو جسٹس مظاہر علی نقوی کا نام سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے  منظور کیا تھاــــــــــفائل فوٹو: پی آئی ڈی
4 مارچ کو جسٹس مظاہر علی نقوی کا نام سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے منظور کیا تھاــــــــــفائل فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں حالیہ تقرری کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں مخالفت سامنے آگئی اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد شیخ نے چیف جسٹس پاکستان کو ایک شکایت ارسال کی ہے جو جوڈیشل کمیشن پاکستان (جے سی پی) کے چیئرمین بھی ہیں۔

ایک صفحے پر مشتمل درخواست میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں آؤٹ آف ٹرن ترقی سے آزاد عدلیہ مجروح ہوگی اور ہائی کورٹ کے ججز کے درمیان اعلٰی عہدے پانے کے لیے غیر صحت مندانہ مقابلے سے انارکی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی، اس کے ساتھ عوام میں عدلیہ کا وقار بھی مجروح ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 16 مارچ کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ سے خالی ہونی والی اسامی پر لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سے سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کا حلف لیا تھا۔

قبل ازیں جوڈیشل کمیشن پاکستان نے 4 مارچ کو جسٹس مظاہر علی نقوی کا نام سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے منظور کیا تھا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سپریم کورٹ کے جج بن گئے

تاہم تعیناتی کے بعد فوراً پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے چیف جسٹس پاکستان کواس درخواست کے ساتھ پٹیشن ارسال کردی کہ سپریم کورٹ جج کی تعیناتی کی سفارش سینیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پرکی جانی چاہیئے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کی پٹیشن پر ردِ عمل دیتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر قلب حسن کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کو اس طرح کا تنازع کھڑا کرنا زیب نہیں دیتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ میں ہائی کورٹ کےجج کی شمولیت ہمیشہ ایک نئی تعیناتی سمجھی جاتی ہے اوراس صورتحال میں سینیارٹی کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔

صدر ایس بی سی اے مطابق اسی طرح کی آؤٹ آف ٹرن ترقیاں ماضی قریب میں ہوئی تھی جب ونیئر ججز کو تعینات کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سینیارٹی کا اصول مدِ نظر رکھا جائے جیسا جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنی پٹیشن میں مطالبہ کیا تو سندھ ہائی کورٹ کے احمد علی شیخ اعلیٰ علدیہ کے ججز میں سب سے سیننئر ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس گلزار کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری

خیال رہے کہ جوڈیشل کمیشن پاکستان کی 4 مارچ ہونے والی میٹنگ میں یہ معاملہ اٹھایا گیا کہ چونکہ عدالت عظمیٰ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی کوئی نمائندگی نہیں اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایک جج کو ترقی دینی چاہیئے۔

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں صوبائی نمائندگیاں کچھ یوں کہ 7 ججز پنجاب، 5 سندھ، 2 خیبرپختونخو اور ایک بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی جج نہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ میں آخری مرتبہ بلوچستان کے جج کو ساڑھے 5 برس قبل ترقی دی گئی جبکہ سندھ کے جج کو ڈھائی برس اور خیبرپختونخوا کے جج کو 2 برس قبل ترقی دی گئی۔

دوسری جانب جسٹس وقار کا اپنی درخواست میں کہنا تھا کہ آئین اور سپریم کورٹ کی جانب سے الجہاد ٹرسٹ اور 1998 کے ملک اسد علی کیس میں نافذ کیے گئے قانون کی روشنی میں درخواست گزار سینیارٹی، میرٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کے لیے موزوں امیدوار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں