سائنسدانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر تحقیقی رپورٹس کے ذریعے تعین کیا جائےکہ کتنے فیصد افراد میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر نہیں ہوتی یا تاخیر سے نمودار ہوتی ہیں، کیونکہ وائرس کو دوسروں میں خاموشی سے منتقل کرنے والے یہ کیرئیر توقعات سے زیادہ تعداد میں ہوسکتے ہیں۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق یورپی ملک نے دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں آبادی کے زیادہ بڑے حصے کو ٹیسٹ کرنے کے بعد دریافت کیا کہ 50 فیصد مریضوں میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

دوسرئ ساتھ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی حکومت کے ریکارڈ کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ایک تہائی ایسے افراد جن میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی، ان میں علامات تاخیر سے ظاہر ہوئیں یا ظاہر ہی نہیں ہوئیں۔

اور ایسے علامات ظاہر نہ کرنے والے کیسز اس وبا کی روک تھام کی کوششوں کو پیچیدہ بنادیتے ہیں کیونکہ بیشتر ممالک میں لوگوں کا ٹیسٹ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ سنگین حد تک بیمار نہ ہوجائے۔

گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت اور چین کے مشترکہ مشن نے ایسے انفیکشنز کی شرح نہ ہونے کے برابر اور وائرس کے پھیلائو کا غیراہم ذریعہ قرار دیا تھا۔

اس کے مقابلے میں امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے سابق سربراہ اسکاٹ گولیب نے مارچ کے شروع میں ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ ایسے خاموش کیریر یا معتدل علامات والے افراد ممکنہ طور پر توقعات سے زیادہ وائرس کو پھییلانے کے ذمہ دار ہیں، جس سے اس کو قابو کرنا مشکل ہوچکا ہے۔

جنوبی کوریا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے ملک میں علامات ظاہر ہوئے بغیر بیمار ہونے والے 20 فیصد سے زائد کیسسز کی تصدیق کی۔

جنوبی کوریا میں بھی لوگوں کے ٹیسٹ کرانے کی شرح بہت زیادہ تھی، جس سے یہ انکشاف سامنے آیا۔

اس سے ہٹ کر مختلف تحقیقی رپورٹس میں بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ کورونا وائرس اس وقت بھی ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوسکتا ہے، جب مریض میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوئی ہوتی۔

وائرس کا اجتماع

گزشتہ ہفتے جریدے نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ وائرس کی زیادہ مقدار یا وائرل لوڈ مریضوں کے ناک میں اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جب علامات بننے لگتی ہیں۔

یہ بات چین میں محققین نے کووڈ 19 کے 18 مریضوں پر کئی ہفتوں تک ہونے والی تحقیق دریافت کی گئئی۔

محققین نے دریافت کیا کہ وائرس کے جینیاتی مواد کا اخراج فلو کے مریضوں سے ملتا جلتا ہوتا ہے، مگر سارز کورونا وائرس کے مریضوں سے مختلف ہوتا ہے۔

ان 18 میں سے ایک مریض میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی، مگر وائرل لوڈ دیگر مریضوں جیسا ہی تھا، جس سے ایسے مریضوں سے وائرس صحت مند افراد تک منتقل ہونے کے عمل کا عندیہ ملتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس ایک سے دوسرے انسان میں انفیکشن کی ابتدا میں ہی منتقل ہوسکتا ہے، اس لیے کیس کی تشخیص اور آئسولیٹ کرنے کے لیے سارز وائرس کے مقابلے میں مختلف حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔

جاپانی تحقیق

جاپان میں ایک تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ حال ہی میں وائرس سے متاثر ہونے والا مریض دوسرے فرد میں اس انفیکشن کو 5 دن کے اندر ہی منتقل کرسکتا ہے، جو کہ اس وائرس کی علامات ظاہر ہونے کی مدت سے کم ہے۔

ہوکایڈو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کے ظاہر ہونے سے قبل ہی بڑی تعداد میں لوگ وائرس کو دیگر افراد میں منتقل کرچکے ہوتے ہیں۔

دوسری جانب کولمبیا یونیورسٹی کی گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ 23 جنوری سے قبل کووڈ 19 کے 86 فیصد ریکارڈ میں نہیں آئے تھے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز میں ہوسکتا ہے کہ علامات کی شدت معمولی ہو، مگر ان کے نتیجے میں بظاہر چین بھر میں اس وائرس کے پھیلائو کے عمل میں تیزی آئی۔

تحقیق کے نتائم میں دنیا بھر میں تیزی سے اس کے پھیلائو کی وضاحت بھی کی گئی اور کہا گیا کہ اس کی روک تھام کسی چیلنج سے کم نہیں۔

گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے یورپی ممالک کی جانب سے لاک ڈاؤن سخت کرنے اور عالمی اسٹاک مارکیٹس کی بدترین صورتحال کے باعث مطالبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس کے ہر مشتبہ کیس کا ٹیسٹ کیا جائے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیڈروس ایدھانوم گیبری ایسس نے کہا کہ ’آپ آنکھیں بند کر کے آگ سے لڑ نہیں سکتے، ٹیسٹ، ٹیسٹ ٹیسٹ ہر مشتبہ مریض کا ٹیسٹ کریں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں