کچھ ممالک کے لوگ ماسک پہن رہے ہیں اور کچھ میں نہیں، ایسا کیوں؟

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2020
کئی ممالک میں فیس ماسک کی سخت قلت بھی پیدا ہوچکی ہے—اسکرین شا/ یوٹیوب
کئی ممالک میں فیس ماسک کی سخت قلت بھی پیدا ہوچکی ہے—اسکرین شا/ یوٹیوب

کورونا وائرس کے دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے کے باوجود اب بھی دنیا کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جہاں پر کم ہی لوگ فیس ماسک استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اس کی ایک وجہ تو دنیا بھر میں فیس ماسک کی قلت ہے جب کہ اس کے علاوہ بہت سارے لوگ فیس ماسک پہننے کو غیر اہم بھی سمجھ رہے ہیں۔

لیکن یہاں عام افراد کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ تو کورونا وائرس کے معاملے کو لے کر بہت حساس ہیں اور وہ فیس ماسک پہنے ہوئے ہیں جب کہ دوسرے لوگوں کو کوئی پروا ہی نہیں۔

دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کی جانب سے فیس ماسک استعمال کرنے اور کئی ممالک میں فیس ماسک کو کم استعمال کرنے کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اس کی کوئی ایک نہیں بلکہ متعدد وجوہات ہیں جن میں سے کچھ ممالک میں فیس ماسک کا استعمال تاریخی اور ثقافتی بھی ہے جب کہ کچھ ممالک میں اب بھی فیس ماسک کا استعمال عام نہیں ہوا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق اس وقت جب کہ کورونا وائرس تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہا ہے اور لوگوں کو فیس ماسک استعمال کرنے کے لیے حکومتیں ہدایات بھی کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود کئی ممالک ایسے ہیں جہاں لوگ فیس ماسک استعمال نہیں کر رہے۔

بی بی سی کے مضمون میں بتایا گیا کہ عام طور پر اس وقت ایشیائی ممالک سب سے زیادہ فیس ماسک استعمال کر رہے ہیں جب کہ یورپی ممالک سمیت امریکا میں بھی فیس ماسک استعمال کرنے کی شرح وہ نہیں ہے جو ایشیائی ممالک میں دیکھی جا رہی ہے۔

مضمون کے مطابق ایشیائی ممالک خاص طور چین، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور جاپان کے کچھ علاقوں میں فیس ماسک استعمال کرنا کوئی آج کی بات نہیں بلکہ وہاں فیس ماسک کا استعمال گزشتہ ایک دہائی سے کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا فیس ماسک نئے کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

مضمون میں بتایا گیا کہ عین ممکن ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں فیس ماسک کا استعمال کورونا وائرس کے بعد بہت بڑھ گیا ہو، تاہم اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایشیائی ممالک مین ماحولیاتی آلودگی سمیت دیگر بیماریوں کی وجہ سے وہاں پر پہلے سے ہی فیس ماسک استعمال کیا جا رہا تھا۔

اس وقت جاپان کا شہر ٹوکیو، ہانگ کانگ، سیول، ووہان، سنگاپور اور تھائی لینڈ کے مقامات ایسے ہیں جہاں پر فیس ماسک کا استعمال سب سے زیادہ کیا جا رہا ہے اور وہاں پر فیس ماسک کا استعمال ایک طرح کا فیشن بھی بن چکا ہے جب کہ وہاں فیس ماسک نہ پہننے والا شخص کچھ عجیب سا لگتا ہے۔

ان ممالک کے علاوہ انڈونیشیا، تائیوان، فلپائن اور ملائیشیا جیسے ممالک میں بھی فیس ماسک کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور وہاں بھی اس کے استعمال میں اضافے کا ایک سبب وہاں ماضی میں آنے والی سارس وائرس جیسی بیماریاں اور ماحولیاتی آلودگی بھی ہے۔

تاہم ایشیائی ممالک کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ چوں کہ کورونا وائرس یہیں سے پھیلا ہے تو وہ احتیاط کے طور پر تھوڑی سی بھی بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد فیس ماسک استعمال کر رہے ہیں یا پھر دوسرے بیمار لوگوں سے بچنے کے لیے بھی فیس ماسک کا استعمال کر رہے ہیں۔

تاہم ایشیا کے بہت سارے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں تاحال فیس ماسک کا زیادہ استعمال نہیں دیکھا گیا اور ایسے ممالک میں سنگاپور بھی شامل ہے، اس کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اگرچہ فیس ماسک کا استعمال بڑھ رہا ہے تاہم پھر بھی بہت سارے ایشیائی ممالک ایسے ہیں جہاں اس کا استعمال کم ہو رہا ہے اور اس کی ایک وجہ وہاں پر ماسک کی قلت بھی ہے۔

بی بی سی کے مضمون میں بتایا گیا کہ ایشیائی ممالک کے مقابلے برطانیہ اور امریکا کے متعدد شہروں سمیت آسٹریلیا میں بھی فیس ماسک کا استعمال کم ہے اور اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔

مضمون کے مطابق چوں کہ یورپی ممالک اور امریکا کے عوام بیماریوں کے تجربات سے نہیں گزرے اور وہاں پر فیس ماسک کا استعمال تاریخی اور عام بھی نہیں تو اس لیے وہاں پر تاحال کم لوگ فیس ماسک استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

فیس ماسک کے استعمال کے حوالے سے ماہرین صحت کیا کہتے ہیں

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے ہر کسی کو فیس ماسک استعمال کرنے کے لیے نہیں کہا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق فیس ماسک صرف ان افراد کو ہی استعمال کرنا چاہیے جو خود کو بیمار سمجھتے ہیں اور جن میں نزلہ، زکام، کھانسی، سانس کی بیماریوں سمیت دیگر طرح کے طبی مسائل ہوں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بیمار افراد کے علاوہ وہ افراد بھی فیس ماسک استعمال کریں جن کا عام افراد سے میل جول ہوتا ہے اور انہیں یہ خطرہ لاحق ہو کہ ان سے ملنے والے کسی بھی شخص میں کوئی بھی بیماری ہو سکتی ہے۔

ساتھ ہی عالمی ادارہ صحت نے واضح کر رکھا ہے کہ اگر کوئی بھی فیس ماسک استعمال کرتا ہے وہ کوشش کرے کہ یومیہ اپنا فیس ماسک تبدیل کریں، تاہم اگر روز ایسا ممکن نہیں تو جلد سے جلد فیس ماسک تبدیل کرے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پرانے فیس ماسک کو متعدد دن تک استعمال کرنا بھی خطرہ ہے جب کہ فیس ماسک کو استعمال کرنے والے افراد بار بار فیس ماسک کو ہاتھ نہ لگائیں۔

مزید پڑھیں: 'صحت مند افراد کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں'

علاوہ ازیں حالیہ کچھ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس ہوا کے ذریعے نہیں پھیلتا بلکہ یہ کسے کو چھونے سے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے اس لیے بھی ماہرین فیس ماسک کے استعمال سے زیادہ بار بار صابن یا ڈیٹول جیسے کیمیکل سے ہاتھ دھونے کی ہدایات کرتے ہیں۔

دنیا کے امیر ترین سپر پاور ملک میں فیس ماسک کی قلت

کورونا وائرس کے بعد اگرچہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں دیگر طبی آلات کی طرح معمولی سمجھے جانے والے فیس ماسک کی قلت بھی پیدا ہوگئی ہے تاہم یہ قلت دنیا کے سپر پاور اور امیر ترین ملک امریکا میں بھی ہے۔

نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق اس وقت امریکا بھر میں محض 25 فیصد افراد کو فیس ماسک میسر ہیں اور وہاں پر 75 فیصد فیس ماسک کی قلت ہے۔

مضمون میں بتایا گیا کہ امریکا کے نہ صرف عام لوگ بلکہ طبی عملہ بھی فیس ماسک سے محروم ہے جب کہ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا سمیت پوری دنیا بھر کے لیے 80 فیصد ماسک چین ہی تیار کرتا ہے جو کہ کورونا وائرس کا گڑھ تھا۔

مضمون میں امریکی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ امید ہے کہ امریکا حالیہ کورونا وائرس کی وبا سے سبق سیکھے گا اور اگلی بار فیس ماسک سمیت دیگر ضروری اشیا کی قلت جیسا سامنا نہیں کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں