کراچی: نماز جمعہ کے اجتماع سے روکنے پر شہریوں کا پولیس پر حملہ

اپ ڈیٹ 04 اپريل 2020
پولیس کی جانب سے شہریوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی — فوٹو : ڈان نیوز
پولیس کی جانب سے شہریوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی — فوٹو : ڈان نیوز

کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکنے پر شہریوں نے مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں پر حملہ کردیا۔

سندھ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث نمازوں کے اجتماعات پر پابندی کے باوجود لیاقت آباد کی غوثیہ مسجد میں نماز جمعہ کا اجتماع منعقد کرنے پر پولیس کارروائی کے لیے پہنچی۔

اس موقع پر وہاں موجود شہریوں نے مبینہ طور پر مشتعل ہوکر پولیس اہلکاروں پر ہی حملہ کردیا۔

مزید پڑھیں: سندھ میں جمعہ کو 12 سے ساڑھے 3 بجے تک مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان

پولیس کی جانب سے شہریوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔

پولیس کے مطابق لیاقت آباد نمبر 7 میں اہلکاروں پر اس وقت تشدد کیا جب انہوں نے غوثیہ مسجد کے امام کو نماز کے اجتماع کی پابندی کی خلاف ورزی پر گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ امام مسجد نے ہجوم کو اکسایا جس کے بعد انہوں نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا جس سے بچنے کے لیے دو اہلکاروں نے مقامی شہری کے گھر پناہ لی۔

کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن نے ڈان کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے پر امام اور مسجد کے ٹرسٹیز سمیت 6 افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف دہشت گردی اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاملے کی تصدیق کی ضرورت ہے اور اس کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ دو معاملوں پر تحقیقات کی جائے گی، ایک یہ کہ گرفتار امام نے علاقے کے لوگوں کو نماز کے لیے اکٹھا کیا، جبکہ دوسرا یہ کہ پولیس کی مداخلت پر کیا انہوں نے ہجوم کو تشدد کے لیے اکسایا۔

دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ترجمان محمد علی نے ڈان کو بتایا کہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر نمازیوں کا مارا پیٹا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹی ایل پی کے کارکنان نے مشتعل ہجوم سے پولیس اہلکاروں کو بچایا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں بھی 14 اپریل تک لاک ڈاؤن ہوگا، مراد علی شاہ

پولیس نے دیگر 5 مساجد کے اماموں کے خلاف نمازوں کے اجتماع پر پابندی کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کرلیا۔

یاد رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جمعہ کو دوپہر 12 سے ساڑھے 3 بجے تک مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔

محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ جمعہ کو دوپہر 12 سے سہ پہر 3 بجے تک کوئی دکان کھلے گی نہ ٹرانسپورٹ چلے گی جبکہ شہریوں کو نقل و حرکت کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

نوٹی فکیشن میں لاک ڈاؤن کے عرصے کے لیے عائد کی گئی دیگر پابندیوں کو دہراتے ہوئے کہا گیا کہ مساجد میں پیش امام، موذن اور عملے کے 3 سے 5 افراد کو باجماعت اجازت ہوگی جبکہ تمام مذہبی اجتماعات پر پابندی ہوگی۔

واضح رہے کہ صوبے میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر سندھ حکومت نے 23 مارچ کی رات 12 بجے سے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔

مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کسی کو غیر ضروری گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

صوبے میں لاک ڈاؤن کے باوجود اشیائے خور و نوش کی دکانیں صبح 8 سے رات 8 بجے تک کھلی رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: سندھ: لاک ڈاؤن کے خلاف صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا

تاہم 27 مارچ کو وزیر اعلیٰ سندھ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کو صوبے میں لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا کہتے ہوئے شام 5 بجے دکانیں بند کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

صوبائی حکومت نے مساجد میں نمازوں کے اجتماعات پر بھی پابندی کا اعلان کیا تھا۔

دو روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

مراد علی شاہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صوبے میں لاک ڈاؤن کی میعاد میں 14 اپریل تک توسیع کی تجویز دی گئی جس کی انہوں نے حمایت کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں