سرفراز کو قومی ٹی 20 ٹیم سے نکال کر غلطی کی، راشد لطیف

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2020
راشد لطیف نے پاکستان کرکٹ کے زوال کی وجہ بورڈ کے نظام میں مستقل تبدیلی کو قرار دیا— فایل فوٹو: اے پی پی
راشد لطیف نے پاکستان کرکٹ کے زوال کی وجہ بورڈ کے نظام میں مستقل تبدیلی کو قرار دیا— فایل فوٹو: اے پی پی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف نے سرفراز احمد کو قومی ٹی20 ٹیم سے نکالنے کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے ہمیں آئندہ 30سالہ منصوبہ بندی کر کے چلنا ہو گا۔

راشد لطیف نے اسپورٹس جرنلسٹ عبدالغفار سے آن لائن خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس سے کرکٹ کو بریک لگ گئی ہے، پی ایس ایل بھی مکمل نہیں ہو پائی جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ سمیت دیگر تمام چیزیں بھی رک گئی ہیں جس کی وجہ سے ہم دوبارہ پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ریٹائرمنٹ کے معاملے پر شعیب ملک اور رمیز راجا کے درمیان نوک جھوک

راشد لطیف نے کہا کہ پی ایس ایل سے قبل دیکھا جائے تو ہم تینوں فارمیٹس میں نیچے کی طرف جا رہے تھے، ہم ٹی20 میں نمبر ایک ہیں لیکن ہمیں خطرہ ہے کہ ذرا سے بھی اونچ نیچ سے یہ عالمی نمبر ایک کی پوزیشن ہم سے چھن جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں کرکٹ بورڈ بہت تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں، ہر دور میں نئی چیئرمین نے بورڈ کا نیا قانون بنایا اور ہر قانون سے ہماری کرکٹ کے بجائے خؤد محفوظ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

سابق وکٹ کیپر بلے باز نے کہا کہ کاش ہمیں کوئی ایسا چیئرمین یا حکومت ملے جو آئندہ آنے والے 30سالوں کیلئے آئین بنائے جس میں اسکول، ریجن، ڈسٹرکٹ، کلب کرکٹ ہو، وہ کرکٹ غائب ہو چکی ہے۔

انہوں نے کلب کرکٹ کی غیرموجودگی کو پاکستان کرکٹ کے زوال کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کراچی اور راولپنڈی میں کلب کرکٹ سے پاکستان کو بہت کھلاڑی ملے لیکن وہ ختم ہو چکی ہے اور دوبارہ عروج کے حصول کے لیے ہمیں پھر سے کلب کرکٹ پر توجہ دینا ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: اظہر نے بند اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے بغیر میچز کے انعقاد کی حمایت کردی

راشد لطیف نے کہا کہ نمبر ایک یا نمبر دو پر آجانا کمال نہیں ہے، یہ نہیں کہ ہم 10سال میں ایک ایونٹ جیت جائیں بلکہ اس سے زیادہ اہم چیز آسٹریلیا، انگلینڈ وغیرہ سے سیریز جیتنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی ایڈمنسٹریٹر، چیئرمین یا منتظم کو کم از کم 5سال دینے چاہئیں اور اس کے بعد اس کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے لیکن ایک سال میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی، سلیکشن کمیٹی، کوچنگ اسٹاف سمیت ہر چیز کی پالیسی بن جانی چاہیے۔

37ٹیسٹ اور 166 ون ڈے میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز رکھنے والے سابق وکٹ کیپٌر بلے باز نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی کرکٹ کے لیے دستاویز بنانا پڑے گی کیونکہ بغیر دستاویز کے ہم نہیں چل سکتے، انگلینڈ، آسٹریلیا جنوبی افریقہ اور بھارت کے پاس یہ موجود ہے اور وہ کرکٹ کے بلو پرنٹ پر چلتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے کھیلوں کا جائزہ لیا جائے تو پالیسی بنانا کوئی مشکل کام نہیں، دنیا بھر میں کامیابی سے کلب اور بورڈز چل رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: کوہلی کی اجارہ داری ختم، اسٹوکس وزڈن کے سال کے بہترین کرکٹر قرار

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ریجن سے کھیلتے تھے اور 8-9 میچز کے بعد وہ ختم ہوتا تو ہم ڈپارٹمنٹ میں آجاتے تھے اور ہمیں اپنی کرکٹ کی بہتری کے لیے وہی پرانا نظام دوبارہ لانا ہو گا۔

راشد لطیف نے کہا کہ کرکٹ سے زیادہ جنون کا کھیل کے عروج سے گہرا تعلق ہے، آج کا بچہ پلے اسٹیشن پر کھیلتا ہے جبکہ ہم اپنے دور میں گلی محلوں میں ٹیپ بال، ٹینس بال اور ہارڈ بال سے کھیلتے تھے، ہمیں جنون تھا لیکن آج شاید وہ جنونیت ختم ہو گئی ہے، ہمارے زمانے میں لوگوں نے پیسے زیادہ عزت کمائی لیکن آج کل اگر ایک کھلاڑی 50ہزار ڈالر کا معاہدہ کرتا ہے تو یہ تو پرانے زمانے کے کرکٹر کی پوری زندگی کی کمائی ہے، آج کا کھلاڑی کرکٹ کھیلتا ہے تو چاہتا ہے کہ پاکستان کےل یے کھیلے لیکن ہم اپنے شوق اور جنون کے لیے کھیلتے تھے۔

اس موقع پر انہوں نے سعید انور کا ایک یادگار قصہ سناتے ہوئے انکشاف کیا کہ 'سعید انور کو کرکٹ شوق نہیں تھا، سعید انور پڑھنے میں اچھے تھے اور کبھی ٹیب بال سے کھیل لیا تو کھیل لیا، ان کے ابا ملیر جیمخانہ سے کھیلتے تھے تو انہیں زبردستی لے کر آتے تھے کیونکہ اسے شوق نہیں تھا، انٹر میں اس نے صحیح معنوں میں کرکٹ شروع کی ایک سپر کپ کا میچ ہوا حیدری سے شالیمار کا میچ تھا تو وحید مرزا نے انہیں اوپنر بھیج دیا ، سعید انور نے دو اوور میں 30-35 کردیے جس کے بعد وہاں سے اسحاق بھائی یو بی ایل لے گئے'۔

یہ بھی پڑھیں: قطر نے ورلڈ کپ میزبانی کیلئے رشوت دینے کے امریکی الزامات مسترد کردیے

راشد لطیف نے احترام کے عنصر کو بھی پاکستان کرکٹ کے زوال کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کے کھلاڑی میں اپنے سینئرز کے احترام کا بھی فقدان ہے، ہمیں اپنے سینئرز سے چاہے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو جائے لیکن ہم احترام کا دامن نہیں چھوڑتے تھے لہٰذا آج اور ماضی کی کرکٹ میں یہ سب سے بڑا فرق ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں کھلاڑی عظیم کھلاڑی بنانے کے لیے ماحول دینا پڑے گا، آزادی دینا پڑے گی تو اس سے کھلاڑی کو اعتماد ملے گا جس سے اس بحیثیت کرکٹر زندگی میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔

قومی ٹیم کے سابق کپتان نے کہا کہ بابر اعظم بڑا کھلاڑی ہے اور عظیم کھلاڑی بھی بن سکتا ہے لیکن اس کی بولنے کی صلاحیت میں کمی محسوس ہوتی ہے جبکہ پابندیوں سے اس کی اس کمزوری مزید نمایاں ہو گئی ہیں۔

انہوں نے نوجوان کھلاڑیوں کو مشورہ دیا کہ وہ ہر حال میں مثبت ذہن کے ساتھ کھیلیں اور پریکٹس کرتے ہوئے اپنے منفی پہلوؤں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ایک کھلاڑی کو سب سے بہتر طریقے سے پتہ ہوتا ہے کہ اس کی خامی کیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'آئی پی ایل کے باعث آسٹریلین کرکٹرز انڈیا کیخلاف صلاحیت کے مطابق نہیں کھیلتے'

راشد لطیف نے کہا کہ ٹی20 سے سرفراز احمد کو نہیں نکالنا چاہیے تھا اور ہم نے تینوں فارمیٹ میں رضوان کو کپتان بنا دیا گیا حالانکہ ٹی20 میں سرفراز اور کامران اکمل دونوں ان سے کہیں بہتر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رضوان ون ڈے اور ٹیسٹ کا بہترین کھلاڑی ہے اور اس میں سے اسے نہیں ہٹانا چاہیے لیکن ٹی20 میں سرفراز یا کامران میں سے کسی ایک کو کھلانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں