چین میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے صوبے ہوبے کے مرکزی شہر ووہان میں پھنسے ایک ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ رواں ہفتے ختم ہونے والے طویل اور کٹھن لاک ڈاؤن سے آزاد ہوچکے ہیں تاہم وہ پاکستان واپسی کا فیصلہ نہیں کرپائے ہیں جہاں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق پی ایچ ڈی کے طالب علم میر حسن بھی ووہان میں 11 ہفتوں کے لاک ڈاؤن میں محصور رہنے والے افراد میں شامل ہیں اور وہ اپنے ملک لوٹنے کو بے چین ہیں۔

—فوٹو:رائٹرز
—فوٹو:رائٹرز

میر حسن جلد سے جلد اپنی ماں سے ملنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے والد فروری میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرچکے ہیں اور بیٹے سے آخری مرتبہ رابطے میں ان کی وطن واپسی کی درخواست کر رہے تھے۔

چین میں موجود طالب علم نے کہا کہ 'میں گھر واپس جانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ میری مادر وطن ہے، میں روزانہ اپنی ماں کو فون کرتا ہوں اور وہ روتی ہیں'۔

خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اب تک یہ تعداد 4 ہزار 688 ہوچکی ہے اور صرف پنجاب میں 2250 سے زائد متاثرین سامنے آچکے ہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان میں 4688 افراد کورونا وائرس سے متاثر، 727 صحتیاب

پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 68 جبکہ صحت یاب متاثرین کی تعداد 727 ہوگئی ہے اور لاک ڈاؤن بھی ملک بھر میں جاری ہے اور ماہرین اس میں توسیع کی تجویز دے رہے ہیں۔

ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کی رپورٹس کے باوجود چین میں موجود کئی طلبہ واپسی کے لیے تیار ہیں جس کے لیے وہ کمرشل پرواز یا حکومت کی جانب سے شروع کی گئی خصوصی پروازوں کی تلاش میں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حکومت تاحال ووہان میں پھنسے ہوئے طلبہ کی واپسی کو نظر انداز کیے ہوئے ہے جبکہ دیگر کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو وہاں سے بے دخل کردیا تھا۔

لاک ڈاؤن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میر حسن کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن سے گہرے نفسیاتی اثرات پڑے ہیں، اس میں والد کی وفات نے ذہنی دباؤ میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک کمرے میں تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور ڈپریشن میں بھی تاہم ووہان میں باہر جانے کی خبر سے خوشی ملی ہے لیکن نفسیاتی دباؤ بدستور موجود ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:حالات مزید بگڑیں گے جس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وزیر اعظم

ووہان میں موجود میڈیکل کی پاکستانی طالبہ حفصہ طیب کا کہنا تھا کہ مجھے کمرشل پرواز کی امید ہے جو اپریل کے وسط میں شروع ہوگی اور پہلی ہی پرواز کے ذریعے اپنے گھر پہنچ سکوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں واپس جانا چاہوں گی، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مشکل وقت میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوں گی دوسری بات بحیثیت میڈیکل کی طالبہ کے اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہوں گی'۔

حفصہ طیب نے کہا کہ 'یہ بہت زیادہ پریشان کن وقت ہے جب میرا خاندان مشکل میں ہے'۔

دوسری جانب کئی طلبہ ایسے بھی ہیں جو وطن واپسی کے بجائے ووہان میں ٹھہرنا چاہتے ہیں جن میں سے اکثر کے چھوٹے بچے ہیں لیکن پاکستان میں پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث واپسی کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور چینی حکام اب اس بحران سے نمٹنے لیے نظام وضع کرچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق محمد وسیم اکرم کی اہلیہ ہوبے میں زیر تعلیم ہیں جو بنیادی طور پر واپسی کے لیے تیار ہیں لیکن حال ہی میں انہوں نے تازہ صورت حال پر تبادلہ خیال کے بعد فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ چین میں ہی رہیں گی۔

مزید پڑھیں:حکومت کے کورونا سے متعلق اقدامات، چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے لیا

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک پاکستان میں حالات معمول پر نہیں آتے اس وقت تک وہ واپس نہیں آئیں گی'۔

تاہم میر حسن نے امید کا اظہار کیا کہ ہمارے شہریوں نے ووہان کے لاک ڈاؤن سے بہت کچھ سیکھ لیا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں اپنے پاکستانیوں سے کہنا چاہوں گا کہ گھروں میں رہیں اور سماجی فاصلہ رکھیں'۔

میر حسن نے کہا کہ 'یہ ہر کسی کے لیے ایک مشکل وقت ہے لیکن اس مشکل وقت کے بعد ہمارے پاس بہت خوشیاں ہوں گی'۔

تبصرے (0) بند ہیں