آئی پی پیز نے غیر منصفانہ معاہدوں کے چارجز مسترد کردیے

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2020
بجلی کے شعبے میں ہونے والے مبینہ نقصانات پر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ تیار کرنے میں نہ تو آئی پی پی اے سی اور نہ ہی کسی آئی پی پی سے مشورہ کیا گیا - فائل فوٹو: اے ایف پی
بجلی کے شعبے میں ہونے والے مبینہ نقصانات پر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ تیار کرنے میں نہ تو آئی پی پی اے سی اور نہ ہی کسی آئی پی پی سے مشورہ کیا گیا - فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ایڈوائزری کونسل (آئی پی پی اے سی) نے کہا ہے کہ بجلی کے شعبے میں ہونے والے مبینہ نقصانات پر انکوائری کمیٹی کی رپورٹ تیار کرنے میں نہ تو آئی پی پی اے سی اور نہ ہی کسی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پی) سے مشورہ کیا گیا۔

آئی پی پی اے سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آئی پی پیز کے خلاف ٹیرف اور ایندھن کی کھپت کی شرح میں غیر منصفانہ معاہدوں اور غلط استعمال کے بارے میں لگائے گئے الزامات غیر تصور شدہ، بے بنیاد اور مایوس کن ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز نے اس وقت ملک کی ترقی کے لیے پسینہ اور خون دیا جب کوئی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: قرضوں کے تحقیقاتی کمیشن کے آئی پی پیز سے ’زائد‘ منافع پر سوالات

انہوں نے کہا کہ ’آئی پی پیز نے غیر یقینی معیشت کو تقویت بخشی ہے جس نے ماضی میں اتنی بڑی تعداد میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں دیکھی تھی‘۔

بیان میں کہا گیا کہ حکومت نے آئی پی پیز کو کئی سالوں سے ادائیگی نہیں کی تھی جس کے نتیجے میں آئی پی پیز ڈیفالٹ کے دہانے پر تھیں جس پر لگ بھگ 600 ارب روپے واجب الادا تھے اور اس کے باوجود وہ بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے لیے دستیاب ہیں۔

آئی پی پی اے سی نے کہا کہ اس سے قبل حکومت نے قومی مفاد میں تصفیہ معاہدے کی شکل میں نو آئی پی پیز کو بہت سی چھوٹ دی تھی لیکن حکومت ہی اس پر عمل درآمد کے لیے باضابطہ منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

تصفیہ کا معاہدہ ایسے آئی پی پیز کے ذریعہ کیا گیا تھا جنہوں نے 2017 میں لندن کورٹ آف انٹرنیشنل ثالثی (ایل سی آئی اے) میں ادائیگیوں کی بازیابی کے لیے کیس جیتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’حکومت نے آئی پی پیز کو 9 کھرب 56 ارب روپے اضافی ادا کیے‘

بیان میں کہا گیا کہ ماضی میں بھی اسی طرح کے اقدامات سے ملک کے سرمایہ کاری کے ماحول اور معاشی امکانات کو بے پناہ نقصان پہنچا تھا اور اگر ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا گیا تو اس کے نتیجے میں پھر وہی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز ہمیشہ ہی حکومت کے ساتھ بامقصد مکالمے میں مشغول ہونے کے لیے تیار رہتی ہیں تاکہ وہ ملک کی انتہائی مشکل ترین ضروریات کے حل کے لیے بات چیت کریں اور ان کا حل تلاش کریں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں، کورونا وائرس کے پیش نظر، آئی پی پی اے سی اور آئی پی پیز بلا تعطل بجلی کی فراہمی کے علاوہ ضرورت کے اس وقت میں پاکستان کی معیشت اور قوم کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Khan Apr 13, 2020 09:49pm
ائی پی پیز کے معاملات ہمیشہ پوشیدہ رہے اور ان کو اربوں روپے کی ادائیگیاں کی جاتی رہی ہے۔ پتہ نہیں ان سے معاہدےکرنے والوں نے ملک اور عوام کا کیوں نہیں سوچا۔ اور زیادہ نرخوں پر ان سے معاہدے کرلیے۔ اگر یہ کمپنیاں اپنی سرمایہ کاری پر مناسب منافع حاصل کر چکی ہو تو پھر ان سے نئے معاہدے ملک اور عوام کے مفاد میں کیے جائیں اور بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کی جائے۔فی یونٹ قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اس سے چوری میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور چھوٹے کارخانہ دار وں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پچھلی حکومت میں کوئلے کے کے کے بجلی گھر بھی زیادہ نرخوں پر لگائے گئے اور ان سے بھی بہت زیادہ مہنگی بجلی حاصل کی جارہی ہے۔