’اسرائیل سے تعلقات بحال‘ کرنے پر مبنی سعودی ڈراما تنازع کی زد میں آگیا

اپ ڈیٹ 30 اپريل 2020
حازم قاسم نے کہا کہ اسرائیل خطرہ ہے اور وہ ہمیشہ عرب قوم کا پہلا دشمن رہے گا 
— فوٹو: میڈل ایسٹ مانیٹر
حازم قاسم نے کہا کہ اسرائیل خطرہ ہے اور وہ ہمیشہ عرب قوم کا پہلا دشمن رہے گا — فوٹو: میڈل ایسٹ مانیٹر

فلسطینیوں نے سعودی عرب کی ٹی وی ڈراما سیریز پر سخت تنقید کی ہے جس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو فروغ دیا جارہا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ڈراما سیریز ام ہارون اور ایگزٹ 7 شو، دبئی میں قائم سعودی ٹی وی نیٹ ورک مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ سینٹر (ایم بی سی) کے ذریعے نشر کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: کیا عرب ممالک فلسطین کو دھوکہ دے رہے ہیں؟

غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والے حماس گروپ کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ ٹی وی ڈراموں کو ’عوام اور ان کے نظریات کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ مخصوص نظریہ کا پرچار کریں‘۔

انہوں نے ترک نیوز ایجنسی اناطولیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سال تیار کیے گئے کچھ عرب ڈرامے اس معاملے کا احترام نہیں کررہے اور وہ عجیب و غریب نظریات پھیلاتے ہیں جو قبضے کے ساتھ بقائے باہمی کا مطالبہ کرتے ہیں اور فلسطینی مقاصد پر سوال اٹھاتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ’اسرائیل خطرہ ہے اور وہ ہمیشہ عرب قوم کا پہلا دشمن رہے گا‘۔

فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے ترجمان مصعب البریم نے بھی سعودی براڈکاسٹر سے نشر ہونے والے متنازع ڈرامے کی مذمت کی اور اسے تمام عربوں اور مسلمانوں کے لیے ’تاریخی دھچکا‘ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وفد کا دورہ بحرین سیکیورٹی خدشات پر منسوخ

انہوں نے کہا یہ ایک ایسی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے جو اداروں پر حکمرانی کررہے ہیں اور اس طرح کی پروڈکشن (نشریات) کے پیچھے ریاستوں کا ہاتھ ہوتا ہے… ایسا لگتا ہے کہ یہ (سعودی عرب) اپنے تمام اخلاقی اصولوں سے دور ہوگیا ہے۔

غزہ کی پٹی میں گورنمنٹ پریس آفس کی سربراہ سلمیٰ معروف نے کہا کہ اس طرح کی نشریات سے فلسطینی کاز کی طرف عربوں کے رویے میں تبدیل کی جھلک نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی قبضے کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے کا مطالبہ غیر اخلاقی اور اخلاقی گراوٹ ہے، خاص طور پر چونکہ یہ ڈراما ان ممالک اور جماعتوں کی جانب سے نشر کیا جارہا ہے جنہیں بنیادی طور پر فلسطین کے حقوق کے شامل ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: عرب ممالک اسرائیل کے خدشات دور کریں، عمان کا مطالبہ

سعودی عرب میں حکام نے مذکورہ معاملے پر تبصرے سے گریز کیا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان میں کہا تھا جس کے تحت یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

جس کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی نے مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کا متنازع امن منصوبہ مسترد کرتے ہوئے واشنگٹن اور اسرائیل سے سیکیورٹی کے امور سمیت تمام نوعیت کے تعلقات ختم کردیے۔

بعدازاں او آئی سی کے اعلامیہ بظاہر امریکی صدر کے منصوبے کی مکمل نفی ہے لیکن بحرین کی جانب سے فلسطین تنازع کے حوالے سے کانفرنس کی میزبانی، سعودی عرب، قطر اور عرب امارات کا شرکت پر آمادہ ہونا اس اعلامیے کی تائید نہیں کرتا۔

بحرین کا اس کانفرنس کی میزبانی پر آمادہ ہونا دراصل امریکا، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے سہہ فریقی تعلقات کا مظہر تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطینی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟

فلسطین کے بائیکاٹ کے باوجود اس کانفرنس کی میزبانی، عرب ممالک کی شرکت پر آمادگی عربوں کے فلسطین پر روایتی مؤقف سے انحراف تھی ۔

رواں ماہ کی 11 تاریخ کو سعودی عرب کی حکومت نے فلسطین سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد پر حماس سے رابطے کا الزام عائد کرتے ہوئے دہشت گردی کے مقدمات قائم کردیے تھے۔

فلسطین اور اردن سے تعلق رکھنے والے 68 افراد کے خلاف دارالحکومت ریاض میں قائم دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

مقدمات کا سامنا کرنے والے افراد کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو بغیر کسی قانونی معاونت کے مقدمات کا سامنا ہے اور زیر حراست افراد کو سعودی عرب کی خفیہ پولیس نے گزشتہ برس اپریل میں گرفتار کیا تھا۔

خیال رہے کہ سعودی عرب میں موجودہ قیادت کے اقتدار سے قبل محمد الخضری کئی دہائیوں تک سعودی عرب میں حماس کے نمائندے تھے اور اس وقت فلسطین کی حامی حکومتیں تھیں لیکن اب حالات اس کے برعکس ہیں۔

مزیدپڑھیں: فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا

حماس کو عرب دنیا میں عام طور پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف قانونی مزاحمتی تحریک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

خطے کے امور کے ماہرین کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت کی پالیسی میں اسرائیل کی جانب جھکاؤ قیادت کے تبادلے کے اندر دیکھا جائے تو سمجھ آجاتی ہے۔

سعودی عرب کے 84 سالہ فرمانروا شاہ سلمان 2015 میں مملکت کے سربراہ بنے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنے 34 سالہ بیٹے محمد بن سلمان کو وسیع اختیارات سونپ دیے جنہوں نے اصلاحات کا اعلان کیا اور کئی تبدیلیاں کیں۔

پروفیسر مہجوب زویری کے مطابق محمد بن سلمان، سعودی عرب کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہیں جس کے لیے بیرونی خاص کر امریکا اور اسرائیل کی سیاسی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مجوزہ امریکی منصوبے کے بعد فلسطین اوسلو معاہدے کا پابند نہیں رہا، محمود عباس

قطر یونیورسٹی میں گلف اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر مہجوب کا کہنا تھا کہ مجھے سعودی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کو حماس کی حمایت پر گرفتار کرنے پر کوئی تعجب نہیں ہے۔

ادھر حماس کی جانب سے جاری بیان میں ان گرفتاریوں کی مذمت کی گئی اور کہا گیا تھا کہ سعودی عرب میں فلسطینی شہریوں پر ان جھوٹے الزامات اور غیر منصفانہ مقدمات کے حوالے سے معاملات کو دیکھا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں