عرب لیگ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے زیادہ تر حصوں سے متعلق اسرائیل کی متنازع تجویز کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام فلسطینیوں کے خلاف ’نیا جنگی جرم‘ ثابت ہوگا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں منعقدہ کانفرنس کے بعد عرب وزرائے خارجہ کی طرف سے مشترکہ بیان جاری ہوا۔

مزید پڑھیں: فلسطین نے امریکا اور اسرائیل سے تمام تعلقات ختم کردیے

بیان میں کہا گیا کہ 'وادی اردن سمیت 1967 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے کسی بھی حصے کو الحاق کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد اور جن زمینوں پر اسرائیلی آباد ہیں وہ سب فلسطینی عوام کے خلاف ایک نئے جنگی جرم کی نمائندگی کرتے ہیں۔

عرب لیگ نے امریکا پر زور دیا کہ وہ ’قابض اسرائیلی حکومت کے منصوبوں کو فعال کرنے میں اپنے تعاون سے پسپائی اختیار کرے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری میں کئی دہائیوں سے جاری اسرائیل اور فلسطین تنازع کے حل کے لیے منصوبہ پیش کیا تھا۔

عرب لیگ کے اجلاس کے دوران فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا کہ اس اقدام سے ’لڑائی سیاسی محاذ سے ختم ہو کر نہ ختم ہونے والی مذہبی جنگ کی طرف موڑ دی جائے گی جو ہمارے خطے میں کبھی استحکام، سلامتی یا امن نہیں لائے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا 'غیر منقسم دارالحکومت' رہے گا جبکہ فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم میں دارالحکومت ملے گا اور مغربی کنارے کو آدھے حصے میں نہیں بانٹا جائے گا۔

فلسطینیوں نے ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کردیا تھا جو پورے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت نہیں دکھائے کیونکہ اس علاقے میں مسلمانوں، یہودیوں اور عسائیوں کے مقدس مقامات موجود ہیں۔

تاہم امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں کہا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا۔

امریکا کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں مغربی پٹی میں اسرائیلی آباد کاری کو تسلیم کرلیا گیا تھا اور ساتھ ہی مغربی کنارے میں نئی بستیاں آباد کرنے پر 4 سال کی پابندی لگائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

فلسطینی اتھارٹی نے مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کا متنازع امن منصوبہ مسترد کرتے ہوئے واشنگٹن اور اسرائیل سے سیکیورٹی کے امور سمیت تمام نوعیت کے تعلقات ختم کردیے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیرڈ کشنر نے کہا تھا کہ اگر فلسطین، مشرق وسطیٰ کے نئے امن منصوبے کی شرائط کو نہیں مانے تو اسرائیل اُسے 'ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا خطرہ مول نہ لے'۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر کو ان کے سخت بیان پر تنقید کا سامنا رہتا ہے۔

اس سے قبل انہوں نے فلسطین کے حوالے سے کہا تھا کہ فلسطین کا ریکارڈ رہا ہے کہ وہ مواقع کھو دیتا ہے اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ منصوبے سے انہوں نے دوبارہ لاپرواہی برتی تو انہیں بین الاقوامی برادری کا سامنا کرنے میں بہت مشکل ہوگی۔

اس منصوبے میں امریکا نے اسرائیل کو اسٹریٹجک اہمیت کی حامل وادی اردن کو ضم کرنے کی بھی منظوری دی جو مغربی کنارے کا 30 فیصد علاقہ ہے جبکہ دیگر یہودی بستیوں کے الحاق کی اجازت بھی شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی بیت المقدس کے حوالے سے ممکنہ امریکی فیصلے کی مخالفت

منصوبے کے جواب میں فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اوسلو معاہدے کے تحت سلامتی تعاون سے دستبردار ہونے کا پیغام بھیجا تھا۔

محمود عباس نے اسرائیلی وزیراعظم کو خبردار کیا تھا کہ اب فلسطین، اوسلو کے معاہدے پر عمل درآمد سے آزاد ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔

ٹرمپ کے منصوبے کے حوالے سے فلسطینی قیادت کا موقف تھا کہ چونکہ امریکی صدر کی پالیسیاں اسرائیل نواز ہیں اس لیے ان کا معاہدہ قابل قبول نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ سے سیاسی ملاقاتوں کا بھی بائیکاٹ کردیا تھا۔

فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیرقانونی قرار دیتا ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں