بیک وقت کئی وزیر اطلاعات تھے،ایک بیانیہ لےکر چلنا مشکل تھا، فردوس عاشق

اپ ڈیٹ 02 مئ 2020
مجھے ہٹانے کے حوالے سے بحث چھڑگئی تھی، ایسا نہیں تھا کہ وزیراعظم نے مجھے عہدے سے ہٹانے کا کہا تھا— فوٹو: اسکرین شاٹ
مجھے ہٹانے کے حوالے سے بحث چھڑگئی تھی، ایسا نہیں تھا کہ وزیراعظم نے مجھے عہدے سے ہٹانے کا کہا تھا— فوٹو: اسکرین شاٹ

وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وزرات میں ایک وقت میں بہت سے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جس کی وجہ سے ایک بیانیہ لے کرچلنا انتہائی مشکل تھا۔

خیال رہے کہ 27 اپریل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات و نشریات تعینات کیا گیا تھا جبکہ اطلاعات فردوس عاشق اعوان سے معاون خصوصی کا عہدہ واپس لیتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو تعینات کردیا گیا تھا۔

اب اپنی برطرفی کے بعد نجی ٹی وی چینل اے آر وائے کے پروگرام 'اعتراض ہے' میں گفتگو کرتے ہوئے سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وزیراعظم پاکستان کا آئینی اور قانونی حق، اختیار اور استحقاق ہے کہ وہ اپنی ٹیم اپنی مرضی کے مطابق منتخب کریں، انہوں نے اپنے اختیار کا استعمال کیا اور اپنی ٹیم لے کر آئے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں دعا گو ہوں کہ نئی ٹیم ان کی توقعات پر پورا اترے اور عوام میں تحریک انصاف کی عوام دوستی، احساس اور پسے ہوئے طبقے کے لیے کچھ کرنے کے عزم کو اجاگر کرے۔

مزید پڑھیں: فردوس عاشق کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم باجوہ معاون خصوصی اطلاعات مقرر

عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق سابق معاون خصوصی نے کہا کہ گزشتہ برس 18 اپریل کو تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے سے لے کر عہدے سے ہٹانے جانے تک کوئی دن ایسا نہیں تھا جب میں کانٹوں کی سیج پر نہیں ہوتی تھی، یہ ایک بہت اہم ذمہ داری ہے اور بہت چیلنجنگ دن ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر روز نکلتے وقت چیلنج الگ ہوتا ہے جوں جوں دن آگے بڑھتا ہے چیلنجز کی تعداد بھی اسی تیزی سے بڑھتی ہے۔

'بیوروکریٹ کو استعفیٰ مانگنے کا اختیار نہیں'

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے مجھے جو اسائنمنٹ دی گئی تھی وہ وزیراعظم کی معاون خصوصی کی تھی یعنی وزیراعظم اس وزارت کے انچارج ہیں اس لیے میرے پاس کسی بھی فائل پر دستخط کا اختیار نہیں تھا یہ انہی کا اختیار تھا، ذمہ داری میری تھی اور اختیار وزیراعظم کا تھا۔

پرنسپل سیکریٹری کی جانب سے استعفیٰ مانگنے سے متعلق سوال پر فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ ایک بیوروکریٹ کو استعفیٰ مانگنے کا اختیار نہیں، کوئی بھی بیوروکریٹ، کتنے بھی گریڈ کا ہو، کسی بھی پوزیشن میں کسی سیاستدان سے استعفیٰ لینے کا حق نہیں رکھتا نہ اسے اس سلسلے میں کوئی آئینی اور قانونی اختیار حاصل نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فردوس عاشق اعوان کو کس وجہ سے ہٹایا گیا؟

انہوں نے کہا کہ یہ اختیار وزیراعظم پاکستان کا ہے، جنہوں نے مجھے منتخب کیا یہ اتھارٹی بھی انہی کی تھی کہ وہ مجھے بلا کر اس کام کے لیے کہتے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ایک وقت میں بہت سارے وزیر اطلاعات کام کررہے تھے جن میں سے مختلف آپ کے سامنے ہی ہیں، وزارت کے اندر ایک بیانیہ لے کر چلنا انتہائی مشکل تھا اور ایسے بھی ترجمان تھے جنہیں باضابطہ طور پر تعینات نہیں کیا گیا تھا اور ان سے وزیراعظم آفس میں بیٹھے لوگ وہ کام کرواتے جس کی ذمہ داری تھیں۔

'معاون خصوصی کی بات نہ ماننے کا کہا گیا'

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سابق معاون خصوصی نے کہا کہ جب یہ چیزیں چل رہی تھیں میرے نوٹس میں آیا کہ جس دن سے میں نے چارج لیا تھا وزیراعظم آفس سے مسلسل میری وزارت، سیکریٹری کو بلا کر بتایا جاتا تھا کہ یہ وزیر نہیں ہیں، یہ صرف وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، وزیراعظم انچارج ہیں لہٰذا ان کے حکم کے مطابق (میں نہیں جانتی یہ وزیراعظم کا حکم تھا یا نہیں) آپ نے معاون خصوصی کی بات نہیں ماننی۔

انہوں نے کہا کہ میں اس لیے نہیں کہتی یہ کہ وزیراعظم کا حکم تھا کہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا کوئی وزیر رکاوٹوں کا شکار ہو، اسے کام کرنے کا موقع نہ ملے یا اس کی وزارت میں غیر ضروری مداخلت ہو، بیوروکریسی سیاسی قیادت کو نقصان پہنچائے اور یا ان کے دفتر میں بیٹھا کوئی بھی شخص وزیراعظم کی جانب سے ایسے فیصلے کرے جس سے ہماری سیاسی قیادت کو مسائل ہوں۔

انٹرویو کے دوران فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میری ٹیم مجھے بتاتی تھی کہ بلا کر یہ کہا گیا تھا لیکن مجھے یہ تھا کہ ہم نے کام کرکے دکھانا ہے، مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا کہ اگر کوئی ایسی پالیسی، ایسا مسئلہ، پروجیکٹ جو براہ راست اسائن کرنا چاہیں، اگر اس سے عوام کی بہتری اور حکومت کا فائدہ ہوتا ہے تو کریں۔

'سرکاری موقف سے پہلے غیر سرکاری بیان آجاتے تھے'

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ نقصان ہوتا تھا کہ بیوروکریسی میں ایک چین آف کمانڈ نہیں ہوگی، متعدد باس ہوں گے اور متعدد جگہ سے وہ ہدایات لیں گے تو کوئی بھی اس کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہوگا اور کوئی بھی شخص اس ذمہ داری اور اتھارٹی کو ایک ساتھ لے کر نہیں چلے گا جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ میرا باضابطہ بیان نہیں آتا تھا اور وزیراعظم آفس یا ترجمان بن کر غیر سرکاری بیان آجاتے تھے جبکہ جب میڈیا میں سرکاری مؤقف دیا جاتا تھا تو غیر سرکاری بیان پہلے ہی آنے سے آپ کی پوزیشن متاثر ہوتی ہے۔

سابق معاون خصوصی نے کہا کہ اس طرح کے اور بھی مسائل تھے جنہیں میں دیکھ رہی تھی یہ چیز وزیراعظم کے نوٹس میں بھی تھی اور میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ کابینہ، وزیراعظم کی جماعت اور ان کی ٹیم میں بہت سے لوگ میری حمایت بھی کرتے تھے اور مجھے سمجھاتے تھے کہ آپ کی لڑائی 4 محاذوں پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب کابینہ کے اندر کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس سے بہتر پرفارم ہونا چاہیے یہ ان کی رائے تھی اور کچھ چاہتے تھے کہ جہاں کام ٹھیک نہیں ہورہا وہاں تبدیلی ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ میں رد و بدل، خسرو بختیار اور حماد اظہر کے قلمدان تبدیل

دورام گفتگو انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 ماہ سے چپقلش چل رہی تھی کچھ غیر مجاز افراد کو وزارت اطلاعات میں شامل کیا گیا تھا اور مجھے کہاگیا تھا کہ وہ میرے ماتحت اور ہدایات پر کام کریں گے اور پارٹی کا بیانیہ بھی آگے لے کر چلیں گے تو انہیں بطور ٹیم رکن مصروف عمل کریں۔

وزارت اطلاعات میں شامل کیے جانے والے افراد سے متعلق سوال پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ابھی تک ان افراد کو ٹائٹل دستیاب نہیں، میں نہیں جانتی کس کی ہدایات پر وہ ہرجگہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں وزارت میں نہیں ہوں، لہٰذا کوئی ایسا مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتی جس سے حکومت کے لیے کوئی مسئلہ ہو، جس پر اینکر کی جانب سے شہباز گل کا نام لیے جانے پر انہوں نے کہا کہ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہے۔

'مجھے ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے بحث چھڑگئی تھی'

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مجھے ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے بحث چھڑگئی تھی، ایسا نہیں تھا کہ وزیراعظم نے مجھے عہدے سے ہٹانے کا کہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہفتہ قبل میں نے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی اور ان سے درخواست کرکے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا کہ مجھے کچھ چیزیں واضح کرنی ہیں اور کچھ گائیڈلائنز دینی ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے ڈومین کے اندر متعدد ٹیمیں موجود تھی میں وزیراعظم سے پوچھنا چاہتی تھی کہ میری ذمہ داری اور اتھارٹی کیا ہے انہیں ایک ہی مرتبہ حل کردیا جائے، پورے ایک سال میں نہ جانے کون کون میرے حوالے سے شکایات، تحفظات لے کر گیا ہوگا، میں ان کی جگہ ہوتی تو یہ فیصلہ کرنے میں 2 مہینے بھی نہ لگاتی۔

'خاموشی سے استعفیٰ لینے کی کوشش دہرانے کی کوشش کی گئی'

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو حقائق مسخ کرکے بتائے گئے تھے، انہوں نے مجھ سے شکایت نہیں کی لیکن میں نے کچھ چیزیں واضح کیں تھیں، وزیراعظم کے الفاظ تھے کہ ' اپنا کام کریں جب مجھے ضرورت پڑے گی میں خود کہوں گا مجھے کسی اور کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے تو ادھر ادھر کی ناسنیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے، آپ اپنا کام کریں'۔

فردوس عاشق نے کہا کہ جس دن مجھے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے بلا کر کہا آپ کے خلاف یہ الزامات ہیں، کالم چھپا ہے، اگر یہ الزامات درست ہیں تو اتنے مزاحیہ ہیں کہ مجھے خود ہنسی آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سیاستدان ہوں میں نے یہاں عزت کے لیے سیاست کرنی ہے، مجھ سے پہلے ماضی میں یوسف بیگ مرزا اور طاہر علی خان کو دفتر میں بلا کر خاموشی سے استعفیٰ لیا گیا تھا انہوں نے چپ چاپ استعفیٰ دیا اور چلے گئے، انہیں عوام کا سامنا نہیں کرنا تھا اور یہی چیز میرے ساتھ دہرانے کی کوشش کی گئی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے حقائق مسخ کرکے ایک بیانیہ بنایا کیونکہ وزیراعظم کی میری کارکردگی سے کسی طرح دو رائے نہیں تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں