ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں انسانی حقوق کے تحفظ کے کئی اقدامات کو نظر انداز کیا، حکومت

اپ ڈیٹ 03 مئ 2020
زینب الرٹ، رسپونس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020، 2019 میں پارلیمنٹ میں متعارف کروایا گیا تھا —
 فائل فوٹو: یوٹیوب اسکرین شاٹ
زینب الرٹ، رسپونس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020، 2019 میں پارلیمنٹ میں متعارف کروایا گیا تھا — فائل فوٹو: یوٹیوب اسکرین شاٹ

اسلام آباد: حکومت نے کہا ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے سالانہ رپورٹ 2019 میں گزشتہ برس ملک میں کمزور طبقے کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں کئی اہم سنگ میل کو نظر انداز کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے جاری بیان میں وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ ایچ آر سی پی نے 2019 میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کئی تحفظات اٹھائے تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ ذہن سازی، قوانین اور اداروں کی تبدیلی کا عمل طویل اور سست ہے، اس دوران تمام اقدامات اور پیشرفت پر نظر رکھنا اہم ہے۔

مزید پڑھیں: زینب الرٹ بل اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود سینیٹ سے منظور

وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ کئی دہائیوں سے نظر اندازی کے نتیجے میں آج پاکستان کو بڑے پیمانے پر درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے پیشرفت سے انکار نے، ان کی نیت پر سوال اٹھادیے ہیں۔

اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ رپورٹ میں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے خطرناک حد تک بڑھتے کیسز کا درست حوالہ دیا گیا تاہم اس میں گزشتہ برس ان کے حقوق اور تحفظ کی خاطر کیے گئے اہم ادارہ جاتی اور قانونی اقدامات کا ذکر شامل نہیں۔

وزارت انسانی حقوق کے مطابق ان اقدامات میں زینب الرٹ، رسپونس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020 شامل ہے جسے 2019 میں پارلیمنٹ میں متعارف کروایا گیا تھا اور بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے نیشنل ایکشن پلان وزارت کی جانب سے تیار کرکے وزیراعظم کے دفتر میں جمع کروایا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ گھریلو تشدد کے جرم کے خلاف بھی اہم اقدامات کیے گئے تھے اور اس مسئلے سے متعلق سوشل میڈیا پر آگاہی مہمات بھی چلائی گئیں تھیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ برس پاکستان میں قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے بھی کچھ اہم پیشرفت ہوئی تھی۔

بیان میں کہا گیا کہ وزارت انسانی حقوق نے 2019 میں جیلوں کی اصلاحات سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی، اس رپورٹ کی بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیلوں کی اصلاحات پر عملدرآمد کمیشن تشکیل دیا تھا جس کی قیادت وزارت کررہی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کی وزارت انسانی حقوق کورونا وائرس کی وبا کے دوران قیدیوں کے حفاظت کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پی) اور دیگر ہنگامی اقدامات پر بھی کام کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: بچوں سے زیادتی، قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور

علاوہ ازیں 2019 میں آزادی صحافت اور سیاسی اختلاف رائے پر قدغن سے متعلق اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کے تحفظ کے لیے اہم قانون سازی پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور 2020 کے آغاز میں وفاقی کابینہ نے اس کی اصولی منظوری بھی دی تھی۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ بل اب قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے حتمی مراحل میں ہے، اس میں صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کے تحفظ کے لیے کئی غیرمعمولی اقدامات اور ملک میں آزادی صحافت کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ رپورٹ میں پاکستان میں مذہبی آزادی کی کمی کو اجاگر کیا گیا، جہاں ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد جاری ہے وہیں 2019 میں حکومت کی جانب سے کئی اقدامات کیے گئے ہیں جو سماجی رویوں اور ذہن سازی میں تبدیلی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ان اقدامات میں کرتار پور سرحد کھولنا، پاکستان کی پہلی سکھ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنا اور ہندو مندروں کی تزئین اور آرائش اور انہیں دوبارہ کھولنا شامل ہے۔

وزارت انسانی حقوق نے مزید کہا کہ حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف تفریق پر مبنی تعلیمی مواد کے حل کے لیے بھی اقدامات کیے تھے اور 30 ہزار مدرسوں کو تعلیم کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ توہین مذہب کے ہائی پروفائل ملزمان جیسا کہ آسیہ بی بی اور وجیہ الحسن کی رہائی نے بھی ایک اہم مثال قائم کی۔

وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ کورونا وائرس ملک میں انسانی حقوق کو متاثر کرنا شروع ہوگیا ہے تاہم حکومت ہنگامی صورتحال کے دوران کمزور طبقے کی دیکھ بھال یقینی بنانے کے لیے اقدامات کررہی ہے، حکومت نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ایمرجنسی کیش تقسیم پروگرام کا آغاز کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ وزارت انسانی حقوق نے کورونا وائرس کے صنفی اثرات پر بھی پالیسی بریف تیار کیا اور وزارت بزرگوں، معذوروں، معاشی و سماجی طور پر کمزور افراد کے تحفظ کے لیے خصوصی پیغامات، ہدایات اور پالیسی کی تیاری پر توجہ مرکوز کررہی ہے جو ان کی تشویش اور مسائل کے لیے اہم ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں