ٹڈی دل کے حملوں سے پاکستان میں غذائی تحفظ کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 21 مئ 2020
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) نے پاکستان میں ٹڈی دل کی صورتحال کے عنوان سے رپورٹ جاری کردی ۔ فائل فوٹو:محمد اکبر نوتیزئی
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) نے پاکستان میں ٹڈی دل کی صورتحال کے عنوان سے رپورٹ جاری کردی ۔ فائل فوٹو:محمد اکبر نوتیزئی

کراچی: اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) نے حالیہ رپورٹ میں پاکستان سمیت متعدد خطے کے ممالک میں ٹڈی دل کے حملوں سے غذائی تحفظ کے بحران کا خدشہ ظاہر کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ‘پاکستان میں ٹڈی دل کی صورتحال‘ کے عنوان سے رپورٹ میں جنوب مغربی ایشیا سے ٹڈی دل کی ہجرت، مختلف ممالک میں اس کے حملے، پاکستان کی زراعت پر انحصار کرنے والی معیشت پر اس کا اثر سمیت پاکستانی حکومت کی اس کو روکنے کے لیے اقدامات اور ابھرتی ہوئی صورتحال کو نمایاں کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان اور مشرقی حصے میں ایران کو سب سے زیادہ خطرے کا سامنا ہے کیونکہ ان علاقوں میں ٹڈیوں کی افزائش ہورہی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان میں 38 فیصد علاقہ (بلوچستان میں 60 فیصد، سندھ میں 25 فیصد اور پنجاب میں 15 فیصد) ٹڈیوں کی افزائش گاہیں ہیں جبکہ اگر انہیں ان کی افزائش کی جگہ تک روکا نہیں کیا تو پورا ملک اس کے حملے کے خطرے میں ہوگا‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں ٹڈی دل کی صورتحال سنگین نوعیت اختیار کرسکتی ہے، ایف اے او

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آنے والے ہفتوں/مہینوں میں ایران کے جنوبی حصے، ایران اور بلوچستان کے سرحدی علاقے، عمان اور مشرقی افریقہ کے سرحدی علاقوں سے ٹڈیوں کے ہجوم پاکستان ہجرت کریں گے۔

انتہائی نوعیت کا خطرہ

رپورٹ میں کہا گیا کہ مشرقی افریقہ میں موجودہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے کیونکہ نئی نسل پیدا ہورہی ہے جس کی وجہ سے مزید ہجوم اکٹھے ہورہے ہیں اور شمالی اور وسطی کینیا، جنوبی ایتھوپیا اور ممکنہ طور پر صومالیہ کے علاقوں میں پختگی اختیار کر رہے ہیں۔

یہ غذائی تحفظ اور معیشت کے لیے انتہائی نوعیت کے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ یہ طویل بارش کے آغاز اور پودے لگانے کے موسم کے ساتھ ساتھ سامنے آرہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘چونکہ اب یہ موسمی برسات کے آغاز کا وقت ہے، ایک اور ٹڈی دل کی نسل کی افزائش ہوگی جس سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ مشرقی افریقہ میں ٹڈیوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافے کا سبب بنے گی، آنے والے مہینوں میں مشرقی یمن اور جنوبی ایران میں بھی ٹڈی دل میں اضافہ ہوگا‘۔

رپورٹ کے مطابق ’اس کے نتیجے میں اس سال موسم گرما کے آغاز پر افریقہ اور ایران سے ہجرت کرنے والے ٹڈی دل کے (پاکستان میں) سنگین یلغار کے امکانات موجود ہیں۔

خطرے کی نوعیت کا اندازہ

پاکستان میں نقصانات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر ان علاقوں میں کنٹرول آپریشن مکمل طور پر مؤثر نہیں ہے جہاں ربیع کی فصلوں جیسے گندم، مرچ اور تلسی موجود ہیں، تاہم انہیں بہت ہی قلیل مدت میں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ٹڈیوں کے حملے کی صورت میں زراعت کو ہونے والے نقصانات صرف گندم، چنے اور آلو کی پیداوار کے 15 فیصد ہوں گے جو تقریبا 205 ارب روپے تک پہنچ سکتے ہیں۔

25 فیصد نقصان کا تخمینہ ہے کہ ربیع کی فصلوں کے لیے تقریبا 353 ارب روپے اور خریف کی فصلوں کے لیے تقریبا 464 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس سے قبل مشرقی خطے میں انتہائی نوعیت کا ٹڈی دل کا حملہ 1993 میں ہوا تھا۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ 2018 کے وسط میں شروع ہونے والے، تقریبا 25 سال بعد جزیرہ عرب میں ٹڈیوں کی پیدائش دو طوفانوں کے نتیجے میں ہوئی جس کی وجہ سے شدید بارشیں ہوئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے چین 50 ڈرونز، کیڑے مار ادویات فراہم کرے گا

انہوں نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں تین نسلوں کی افزائش ہوئی اور ٹڈیوں کی تعداد میں سال 2018 کے وسط سے لے کر 2019 کے اوائل تک اس علاقے میں 8 ہزار گنا اضافہ ہوا جہاں علاقے انتہائی دور دراز ہونے کی وجہ سے سروے اور کنٹرول کی سرگرمیوں سے دور رہے۔

ہجرت کا طریقہ کار

پاکستان کو دیکھا جائے تو رپورٹ میں کہا گیا کہ بہار میں ہونے والی افزائش آئندہ چند ہفتوں تک ساحلی اور بلوچستان کے اندرونی علاقوں میں جاری رہے گی اور ٹڈی اپنی عمر کو پہنچ کر جھنڈ کی شکل اختیار کریں گے۔

تاہم جب یہ رپورٹ تیار ہوئی اس وقت تک سندھ میں ٹڈی دل کی بڑی تعداد کی موجودگی نہیں دیکھی گئی تھی۔

مئی کے آخر تک ٹڈی دل بہار والے علاقوں اور جنوب مشرقی ایران کے ملحقہ علاقوں سے پاک بھارت سرحد کے دونوں اطراف کے موسم گرما کے علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہوجائیں گی جو جون تک جاری رہے گی۔

نتیجتاً موسم بہار کے علاقوں میں جن جھنڈ کا پتہ نہیں چل سکا یا انہیں روکا نہیں گیا تو اس کا امکان ہے کہ وہ وادی سندھ کو عبور کر کے تھرپارکر نارا اور چولستان کے ویران علاقوں تک مون سون بارشوں کے آغاز تک پہنچ سکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘اس سال صورتحال کئی دہائیوں سے بری ہے، جون کے آخر میں اور جولائی کے دوران مشرقی افریقہ میں ٹڈی دل کے حملے کا دوسرا خطرہ بھی موجود ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں