اسلام آباد ہائیکورٹ نے مجرمانہ اپیلوں پر 3 ماہ میں فیصلہ کرنے کی پالیسی تجویز کردی

اپ ڈیٹ 06 مئ 2020
عدالت نے کچھ مقدمات میں ملزمان کو بری کرتے ہوئے نظام انصاف کی خامیوں کا اعتراف کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے کچھ مقدمات میں ملزمان کو بری کرتے ہوئے نظام انصاف کی خامیوں کا اعتراف کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسے کیسز جو دہائیوں سے زیر التوا ہیں انہیں 3 ماہ میں نمٹانے کے لیے ایک پالیسی تشکیل دے دی۔

واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی عدالت نے کچھ مقدمات میں ملزمان کو بری کرتے ہوئے نظام انصاف کی خامیوں کا اعتراف کیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کی پالیسی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے ’سماعت کے لیے مجرمانہ اپیل کو طے کرنے کا طریقہ کار وضع کیا، قانونی رسمی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم مقرر کیا اور پھر اپیلوں کو ختم کرنے کے لیے شیڈول مرتب کیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کی نظام انصاف پر شدید تنقید

خیال رہے کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیر کو 7 اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جو دہائیوں سے جیلوں میں قید تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا موجودہ نظام انصاف ’جرائم کو روکنے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی میں ناکام‘ ہوگیا ہے کیوں کہ یہ نظام ’مسلسل انصاف کے قتال اور بظاہر تباہی کے دہانے پر ہے‘۔

عدالت نے کہا تھا کہ موجودہ نظام انصاف میں مجرمانہ اپیلوں پر فیصلہ ہونے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں اور بعض اوقات ملزمان کو قید میں رہتے ہوئے فطری موت آنے کے بعد بری کردیا جاتا ہے۔

مجوزہ پالیسی کے مطابق ’سزا کے خلاف ہر اپیل پر عدالت میں دائر ہونے کے 90 روز کے اندر فیصلہ سنا کر خارج کیا جائے‘۔

مزید پڑھیں: ’نظام انصاف کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘

مزید یہ کہ سزا کے خلاف اپیلوں کو 2 طریقوں سے وصول کیا جائے یا تو اس جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے جہاں ملزم قید ہے یا خط کے ذریعے منسلک کیے گئے وکیل کی جانب سے وصول کیا جائے۔

مجوزہ مسودے میں کہا گیا کہ سزا کے خلاف اپیل موصول ہونے کی تاریخ کے ایک ہفتے کے اندر اسے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

تجویز میں کہا گیا کہ اگلے مرحلے میں جب اپیل عدالت میں داخل ہوجائے تو رجسٹرار آفس سے متعلقہ پولیس اسٹیشنز کے ذریعے 10 روز میں فریقین کو نوٹسز جاری کیے جائیں جبکہ رجسٹرار آفس کو ریکارڈ طلب کر کے 15 روز میں پیپر بک تیار کرلینی چاہیے۔

مجوزہ پالیسی کے مطابق وکلا تحریری دلائل عدالتی ڈپٹی رجسٹرار کے پاس ای میل کے ذریعے جمع کرواسکتے ہیں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل، اٹارنی جنرل اور متعلقہ ادارے اپنی دستاویزات جمع کروانے کے لیے اپنے نمائندوں کو نامزد کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: 'وارنٹ گرفتاری کے بغیر نگرانی کے نیب اختیارات، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں'

جس کے بعد یہ رجسٹرار آفس کی ذمہ داری ہے کہ تمام رسمی کارروائیوں کو اپیل دائر ہونے کے 30 روز کے اندر مکمل کرے اور اس کے بعد ایک ہفتے میں اپیل (سماعت کے لیے) مقرر کردے۔

تجویز میں یہ بھی کہا گیا کہ سماعت وکیل کی غیر حاضری کی بنیاد پر ملتوی نہ کی جائے بلکہ تحریری دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کرلیا جائے۔

اس پالیسی کے تحت ڈسٹرک اور سیشن ججز سے بھی مجرمانہ مقدمات کو جلد از جلد ترجیحی طور پر رپورٹ جمع ہونے کے بعد 90 روز میں حتمی انجام تک پہنچانے کا کہا گیا۔

اس کے ساتھ ہائی کورٹ کے عدالتی رجسٹرار نے تجاویز کا مسودہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول ججز، پاکستان بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل اور اس کے صدر، ڈسٹرک بار ایسوسی ایشنز اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو فراہم کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں