یکم جون سے اسکول کھولنا ممکن نظر نہیں آرہا، وزیر تعلیم سندھ

اپ ڈیٹ 06 مئ 2020
وزیر تعلیم کے مطابق عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ فیسوں میں رعایت کا فیصلہ لاک ڈاؤن سے متاثر والدین کے ریلیف کے لیے ہے —فوٹو: ڈان نیوز
وزیر تعلیم کے مطابق عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ فیسوں میں رعایت کا فیصلہ لاک ڈاؤن سے متاثر والدین کے ریلیف کے لیے ہے —فوٹو: ڈان نیوز

وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ موجودہ حالات کے باعث ہمیں یکم جون سے اسکول کھولنا ممکن نظر آرہا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ یکم جون سے اسکول کھولنے کا اعلان کیا تھا اور اس حوالے سے چند دنوں میں ایجوکیشن کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے گا جس میں اعلان کریں گے کہ اسکول کھولنا ممکن ہے یا نہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ جو حالات ہمیں نظر آرہے ہیں شاید یکم جون سے اسکول کھولنا ممکن نہ ہو۔

سعید غنی نے کہا کہ جب لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس وقت وزیراعلیٰ سندھ نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ تمام لوگ کسی فیکٹری میں ملازم ہیں انہیں اس لاک ڈاؤن کے دوران بھی تنخواہیں دی جائیں گی اور کسی کو بھی ملازمت سے نہیں نکالا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے اسکول فیسوں میں 20 فیصد کٹوتی کا نیا نوٹیفیکشن معطل کردیا

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی طرح محکمہ تعلیم کے حوالے سے کہا تھا کہ تمام نجی اسکولز اپنے ملازمین کو بشمول اساتذہ پوری تنخواہ دیں گے اس میں کوئی کٹوتی نہیں کی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں ملازمت سے بھی نہیں نکالیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے محکمہ داخلہ، تعلیم اور محنت نے حکم نامے بھی جاری کیے جس کی بنا پر مختلف فیکٹریوں میں کام کرنے والے لوگوں کو تنخواہیں بھی دی گئیں لیکن ہمارے پاس کئی شکایات بھی آئیں اور ان شکایات کے ازالے کے حل کے لیے ہدایات بھی جاری کیں۔

سعید غنی نے کہا کہ لیبر ڈپارٹمنٹ میں 79 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 53 کا ازالہ کردیا ہے، ان میں سے 73 شکایات تنخواہوں سے متعلق تھیں جبکہ 12 شکایات میں بتایا گیا تھا کہ لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔

'ملازمین کو دھمکا کر استعفیٰ لینے کی شکایات موصول ہوئیں'

وزیر تعلیم نےکہا کہ ہم نے ملازمتوں سے نکالنے پر پابندی لگائی تھی استعفوں پر نہیں ہمارے پاس یہ شکایات بھی آئیں کہ کئی جگہوں پر ملازمین کو بلا کر ڈرا دھمکا کر ہراساں کرکے استعفیٰ لیا گیا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ان ملازمین کو دوبارہ نوکریاں دلوائیں اور فیکٹریوں سے حلف نامہ لکھوایا کہ جنہیں ملازمت سے نکالا گیا ہے انہیں دوبارہ نوکری پر رکھا جائے گا۔

سعید غنی نے کہا کہ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ فیکٹری مالکان کو مشکلات کا سامنا ہے خاص طور وہ فیکٹریاں جو مکمل طور پر بند ہیں اور انہیں تنخواہیں دینے میں مشکل پیش آرہی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن واپس لینے پر فیسوں میں کمی کی درخواست نمٹادی

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت وہ ادارے جو اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے پارہے وہ قرضے کے ذریعے اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرسکتے ہیں، اسٹیٹ بینک نے اس پر 4 اور 5 فیصد شرح سود رکھی ہے۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ میں اسٹیٹ بینک سے گزارش کرتا ہوں کہ اس اسکیم پر سود بالکل نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر ایسا نہیں ہورہا تو اسے ایک اور 2 فیصد کردیں تاکہ مالکان اس سے مستفید ہوسکیں اور اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرسکیں۔

انہوں نے ورکرز یونین سے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ ہم مالکان کو ایک آپشن دے سکتے ہیں کہ اگر اسٹیٹ بینک اس پر مارک اپ بھی دے رہا ہے تو یہ مارک اپ ملازمین سے چارج کرلیں تاکہ وہ مالکان کے لیے بلا سود ہوجائے۔

سعید غنی نے کہا کہ ہمارے ملک میں جو حالات ہیں وہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مالکان بھی کما نہیں پارہے اگر کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ملازمین کام نہیں کرپارہے تو خود کچھ کردار ادا کریں اور انہیں تنخواہیں ادا کریں۔

'عدالت میں فیسوں میں رعایت کا کیس لڑیں گے'

وزیر تعلیم نے کہا کہ ہم نے اعلان کیا تھا کہ تمام اسکول اپریل اور مئی کی فیسوں میں 20 فیصد رعایت دیں گے اور اپنے ملازمین کو پوری تنخواہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 16 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ نے 20 فیصد کٹوتی پر حکم امتناع جاری کیا تھا لیکن نوٹی فکیشن کے باقی حصوں کو بحال رکھا تھا، تمام اسکول آج بھی اس پر پابند ہیں کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کریں گے اور کسی کو ملازمت سے نہیں نکالیں گے۔

سعید غنی نے کہا کہ 29 مئی کو نیا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے باعث درخواست نمٹادی گئی تھی لیکن 5 مئی کو ایک اور درخواست دائر کیے جانے کے بعد عدالت نے ہمیں نوٹس دیا ہے لیکن ساتھ ہی نوٹی فکیشن بھی معطل کردیا ہے، فی الوقت ہم اسکولوں کو 20 فیصد رعایت دینے کا نہیں کہہ سکتے۔

انہوں نے حکم امتناع کے باوجود فیسوں میں 20 فیصد رعایت دینے والے نجی اسکولوں کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے یہ کہہ کر ریلیف دیا کہ ہمیں احساس ہے کہ شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور رضاکارانہ طور پر والدین کو فیسوں میں رعایت دی۔

سعید غنی نے کہا کہ ہم عدالت میں یہ کیس لڑیں گے اور قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہمارا فیصلہ صریحاً صوبے کے ان والدین کو ریلیف دینے کے لیے ہے جن کا روزگار لاک ڈاؤن سے متاثر ہوا، جو اسکولز والدین کو رعایت دینے کے لیے تیار ہیں اس سے مستفید ہوں جو نہیں دے رہے وہ انتظار کریں۔

وفاقی حکومت سے بجلی و گیس کے بل معاف کرنے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا تھا اور کے الیکٹرک، سیپکو، ہیسکو، ایس ایس جی سی کے نمائندوں سے کہا تھا کہ جن کا بجلی کا بل 4 ہزار روپے تک اور گیس کا بل 2 ہزار روپے تک ہے ان سے لاک ڈاؤن کے دوران بل نہ لیا جائے اور یہ بل اگلے 10 ماہ کی قسطوں میں ایڈجسٹ کیا جائے جس پر توانائی ڈویژن کے ترجمان نے کافی تنقید کی تھی۔

سعید غنی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ گیس اور بجلی کا بل معاف کرسکتے ہیں، وفاق نے برآمد کنندگان کو 100 ارب روپے کے قریب ریلیف دیا ہے، تعمیراتی صنعت کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے اس سے پہلے بھی امیروں کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جاتی رہی ہے مختلف اعلانات کیے جارہے ہیں لیکن اس ملک کے غریبوں کو سب سے بڑا ریلیف یہ مل سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کا بجلی اور گیس کا بل معاف کیا جائے۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے اسکول فیسوں میں 20 فیصد کمی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

وزیر تعلیم نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ مدارس اور مساجد کے بجلی و گیس کے بل معاف کیے جائیں کیونکہ وہاں لوگ آتے ہیں اور چندے کی بنیاد پر ہی بل ادا کیا جاتے ہیں لیکن پچھلے 2 ماہ سے نمازیوں کی تعداد ان مساجد میں کم ہوئی ہے ہم نے لوگوں کو مساجد میں جانے سے روکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران رہائشی علاقوں میں جن کے 200 یونٹس اور گیس کا بل 2 ہزار روپے ہے ان کے بل معاف کیا جائے جو اس سے متاثر ہوئے ہیں۔

'پی ٹی آئی رہنما صحت کے بحران پر سیاست نہ کریں'

وزیر تعلیم نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما صحت کے بحران پر سیاست نہ کریں، جس دن ہم نے یہاں خلاف ورزی پر تاجروں کو گرفتار کیا اور ایف آئی آر بھی کاٹی تو یہ ان سے ملنے گئے کافی شور بھی مچایا لیکن اسی دن پشاور میں جب کچھ لوگوں نے دکانیں کھولنے کی کوششیں کیں تو وہاں کی پولیس نے ان پر فائرنگ کی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات میں یہ تضاد نہیں ہونا چاہیے، میری ان سے گزارش ہے کہ اس وقت پورے ملک میں اور پوری دنیا میں ایک سنگین صورتحال ہے ہمیں اس وقت پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ دکانیں کھولنی چاہیئیں تو اس میں کوئی بری بات نہیں انہیں سمجھنا چاہیے اور مطالبہ بھی کرنا چاہیے لیکن انہیں یہ مطالبہ وفاقی حکومت اور خیبرپختونخوا کی حکومت کے سامنے بھی رکھنا چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہاں ٹرانسپورٹ اور مارکیٹیں کھولی جائیں اور دیگر صوبوں میں بندرہیں، قوم میں یکسانیت اور یکجہتی رہنے دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں