وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر کی پیپلزپارٹی وفاق کی بات کرتی تھی آج صوبائیت میں تبدیل ہوگئی ہے، وبا کی وجہ سے آج سندھ کارڈ کی نہیں بلکہ پاکستان کارڈ کی ضرورت ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث عائد بندشوں میں نرمی کے اعلان کے بعد پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہو ا جہاں اراکین نے ٹیسٹ کے بعد شرکت کی۔

وزیر اعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، وفاقی وزیر فواد چوہدری سمیت کئی اراکین نے اہم اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس پر یک نکاتی ایجنڈے پر قومی اسمبلی کا فیصلہ کیا اور اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم کیا۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کا چیلنج مشکل ہے اور حقیقت ہے کہ جنگ عظیم سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ اس کا علاج ویکسین کی صورت میں سامنے نہیں آتا اس وقت تک مختلف تجربوں سے اس کو محدود کرنے کی ہم بھی کوشش کررہے ہیں لیکن خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ دو سال لگیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں مل بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا اور مشترکہ ایجنڈا بنانا ہوگا۔

'آج پاکستان کارڈ کی ضرورت ہے'

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی وفاق کی بات کرتی تھی لیکن آج میں حیران ہوں کہ وفاقی سوچ صوبائیت میں کیوں تبدیل ہوئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پیپلزپارٹی سے وفاق کی خوشبو آتی تھی لیکن اب صوبائی تعصب کی بو دیکھتا ہوں تو تشویش ہوتی ہے، اور اس پر ہمیں نظرثانی کرنی ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وقت آگیا ہے اور یہ وبا تقاضا کرتا ہے کہ آج نیشنل اور پاکستان کارڈ ہے اور سندھ کارڈ کی آج ضرورت نہیں ہے، آج پاکستان کارڈ کی ضرورت ہے جس کو سامنے رکھ کر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں'

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت 209 ملک اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ 40 لاکھ افراد متاثرجبکہ 2 لاکھ 80 ہزار 700 افراد وائرس کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔

پاکستان کی صورتحال پر بات کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس قبل ایک تقابلی جائزہ آپ کے سامنے ہونا چاہیے، امریکا جس کا نظام صحت بہت جدید ہے اس کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں 80 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں جبکہ برطانیہ میں 31 اور اٹلی میں 30 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس کا موازنہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے کریں، جہاں نظام صحت بھی کمزور ہے، تاہم یہاں صورتحال یہ ہے کہ 10 مئی تک 661 اموات ہوئی ہیں اور 29 ہزار سے کچھ زیادہ مثبت کیسز ہیں جبکہ 8 ہزار 23 لوگ اس سے صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔

وزیرخاجہ نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی میں سامنے آتا ہے، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ جب اس وائرس کا پہلا کیس پاکستان میں آتا ہے تو اس وقت ہماری کیا صورتحال تھی۔

انہوں نے بتایا کہ جب پہلا کیس آیا تو یومیہ 100 ٹیسٹ کرنے کی سہولت تھی لیکن ہم ہماری صلاحیت 20 ہزار کیس روزانہ کرنے تک پہنچ چکی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے مطابق جب پہلا کیس آتا ہے تو ہمارے یہاں 8 لیبارٹری کام کر رہی تھی اور اب 70 سے زائد لیبارٹری کام کر رہی ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر پاکستان کا موازنہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے کیا جائے تو پاکستان کی ٹیسٹنگ کی صلاحیت اس وقت تک دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہماری ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت 10 ہزار سے زائد ہوگئی ہے، شروع میں 8 لیبارٹریز میں ٹیسٹ ہورہے تھے اور آج 70 کے قریب لیبارٹریاں ہیں جو فعال ہیں۔

'سندھ میں پیپلزپارٹی 12 سال سے حکومت میں ہے'

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں 2 اہم حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ نے بحث کا آغاز کرنا ہے، لہٰذا جب ہم بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ صحت کا شعبہ بنیادی طور پر 2010 میں تقسیم ہوچکا ہے اور اس کی بنیادی ذمہ داری 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوچکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سندھ میں 12 سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جبکہ گزشتہ 10 سال مسلم لیگ (ن) پنجاب میں حکمرانی کرتی رہی۔

دوران خطاب انہوں نے کہا کہ جب ہم انفیکشن اور اموات کی شرح کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ہمیں ایک تقابلی جائزہ کرنا چاہیے، ہم ہوا میں بات نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں انفیکشن اور اموات کی شرح 2.17 فیصد ہے جبکہ اگر عالمی طور پر اس کی اوسط دیکھیں تو یہ 6.8 فیصد ہے، پاکسان میں ابھی ہمارے سامنے چیلنج آنا ہے لیکن اس وقت تک اللہ کا کرم ہے کہ اس کی رحمت ہم پر ہے۔

وزیر خارجہ کے مطابق ہمارا جو خیال تھا اور جو پہلے اندازہ بنایا جارہا تھا تو اس کے تحت اب تک ہمارا نظام صحت تباہ ہوچکا ہوتا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں برملا اعتراف کروں گا کہ ٹیسٹ کرنے کی تعداد ناکافی ہے۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انفیکشن اور اموات کی شرح 2.8 فیصد ہے اور دنیا میں 6.8 فیصد ہے، گوکہ پاکستان میں ابھی عروج آنا ہے لیکن ہم پر اللہ خاص کرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بنیادی فیصلے کیے جس میں کچھ اصول مرتب کیے، ایک یہ کہ ہم اپنے فیصلوں میں اجتماعی رائے اور حکمت عملی کا سہارا لیں گے، اسی سلسلے میں ہم نے 2 فورم تشکیل دیے، جس میں ایک قومی رابطہ کمیٹی کا ہے جس کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں جبکہ ایک نیشنل کماںڈ اینڈ آپریشن سیںٹر ہے جس کی سربراہی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کرتے ہیں

انہوں نے کہا کہ اس کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو نمائندگی دی جاتی ہے اور ان کے سیکریٹری اس فورم کے ممبر ہیں، روزانہ این سی او سی کا اجلاس ہوتا ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روزانہ اسد عمر تمام نمائندوں سے اپ ڈیٹ لیتے ہیں، اس کے علاوہ مشاورت کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا مقصد اتفاق رائے پیدا کرنا ہے تاکہ اس وائرس سے لڑا جاسکے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔

'اٹھارویں ترمیم کے تحت صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے'

اپنے خطاب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وفاق کی ذمہ داری ہے یہ جانتے ہوئے کہ 18 ویں ترمیم کا ہم پر نفاذ ہوچکا ہے اور صوبائی خودمختاری کا موضوع بہت حساس ہے ہم نے کوشش کی ہے کہ صوبوں کو فلیکسیبلٹی دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحت کا نظام 2010 میں صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے اور ان ترامیم کے بعد سندھ میں مسلسل پیپلزپارٹی اور پنجاب میں دس برس تک پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی اور یہ ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت دنیا کو پیٖغام دے رہا ہے کہ ہمیں بھارت کو کورونا جہاد کررہا ہے اور اس عالمی وبا کو مذہبی رنگ دے رہا ہے جس کی پاکستان سختی سے مذمت کررہا ہے۔

تفتان سرحد کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے لیکن میں نے ایران کے وزیر خارجہ سے خود بات کرکے ان سے کہا تھا کہ زائرین کو روکیں جس پر انہوں نے اتفاق کیا تھا لیکن وہ پابندیوں سے متاثرہ ملک ہے اور دباؤ برداشت نہیں کرسکے.

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایران سے 5 ہزار سے زائد زائرن کو واپس بھیجنے کے لیے دروازہ کھول دیا اور پاکستان کی طرف دھکیل دیا.

انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت پر کورونا وائرس کے حوالے سے بات کی گئی اور انگلیاں اٹھائی گئیں، یہ ستم ظریفی ہے کہ ہم نے کن زاویوں سے عالمی وبا کو سمجھے کی کوشش کی.

صوبوں کے خدشات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو صوبے کہتے ہیں امتیازی سلوک برتا جارہا ہے لیکن بصد احترام یہ درست نہیں ہے، بہتری کی گنجائش موجود ہے اور ہم اپنے وسائل کے مطابق بہتری کی کوشش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بیٹھے ہوئے، میں ان کی نذر چند حقائق کروں گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک تاثر ملا کہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو میں واضح کردوں گا کہ ہم نے وفاقی سطح پر ایک پروگرام کا آغاز کیا جس کا نام احساس کفالت پروگرام ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام پورے پاکستان کے لیے اور اس وقت سندھ میں 26 ارب روپے احساس کفالت کے ذریعے پہنچادیے گئے ہیں اور 23 لاکھ کنبے اس سے مستفید ہوچکے ہیں۔

لاک ڈاؤن وقت پر ہوتا تو کیسز کم ہوتے، خواجہ آصف

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری احتیاطی تدابیر میں کمی اور سستی ہوتی رہے، جب کورونا وائرس سے چند اموات اور ہزار یا اس سے زیادہ متاثرین تھے تو ہم نے مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور جب اموات 100 یا ڈیڑھ سو تک پہنچیں تو ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ مئی کے تیسرے ہفتے میں یہ تعداد بڑھے گی اور جب مئی آیا تو ہم نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، یہ گومگو کی پالیسی ہے جو پچھلے دو ماہ سے ایک ایسی وبا سے لڑنے کے لیے بنائی گئی ہے جس نے ساری دنیا میں کہرم بپا کیا ہوا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ڈاکر ظفرمرزا نے ایک بریفنگ میں کہا کہ 75 فیصد کیسز ایران سے آئے ہیں، 17 فیصد دیگر سفر کرنے والے اور 5 فیصد مقامی ہیں اور ابب شاہ محمود قریشی نے کہا کہ صحت کا محکمہ صوبوں کا ہے لیکن ایئرپورٹس میں تمام ملازمین اور صحت کا عملہ وفاقی حکومت کا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ظفر مرزا کے بقول 75 فیصد کا سیلاب جو بلوچستان میں آیا تو تفتان میں عملہ صوبائی حکومت کا نہیں تھا بلکہ وفاقی حکومت کا عملہ تھا، حکومت اس ایوان کو امیگریشن کی دستاویزات فراہم کرے کہ کتنے لوگ وہاں آئے اور کتنی دیر رہے۔

'252 افراد کی پہلی کھیپ کسی روک ٹوک کے بغیرگھروں کو چلی گئی'

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ پہلی کھیپ میں 252 لوگ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے جس کے بعد ہزاروں افراد کو ایک چھوٹے گاؤں میں رکھا جہاں کیا سہولیات ہوسکتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جہاں کھڑے ہیں وہ دو ڈھائی مہینوں کی غفلت کی وجہ سے کھڑے ہیں، اگر شروع میں کیا گیا لاک ڈاؤن جاری رہتا تو آج اس صورت حال سے مقابلے کی طاقت فراہم کرتا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ نے کہا ہمارے پاس روزانہ 20 ہزار ٹیسٹ کی صلاحیت ہے جبکہ ہمیں دو ہفتے پہلے کمیٹی میں بتایا گیا کہ 50 ہزار روزانہ ٹیسٹ کریں گے لیکن آج 10 دن بعد وزیرخارجہ کہہ رہے ہیں 20 ہزار روزانہ ٹیسٹ ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تک پاکستان میں 2 لاکھ سے کچھ زیادہ ٹیسٹ ہورہے ہیں جو 22 کروڑ کی آبادی کے لیے ناکافی ہے جبکہ ملک میں 30 ہزار کیسز ہیں۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی عدم شرکت پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ پارٹی نے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو اسمبلی اجلاس میں شرکت سے روک دیا۔

مریم اورنگزیب نے بیان میں کہا کہ پارٹی نے یہ فیصلہ شہبازشریف کے ڈاکٹروں کی تحریری رائے کی تائید کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے سختی سے منع کیا ہے کہ شہبازشریف قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کریں کیونکہ کینسر سرجری اور قوت مدافعت میں کمی سے ان کی صحت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم کنفیوزڈ ہیں، بلاول بھٹو
—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

پی پی پی چیئرمین نے اپنے خطاب نے کہا کہ وفاق اور حکومت پاکستان کو ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہونا تھا اور جہاں صوبائی حکومت ایک پیسہ خرچ کرتی ہے وہاں وفاق کو دس روپے خرچ کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم درخواست کرسکتے ہیں کہ تعاون کی جائے۔

دنیا میں طبی عملے کو پیکجز دیے جارہے ہیں اور خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کیا ہوتا ہے، بلوچستان میں ڈاکٹروں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پنجاب میں ڈاکٹروں کو بھوک ہڑتال کرنی پڑتی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ کا وقت ہے تو ہمارا وزیراعظم موجود نہیں ہے، وزیراعظم کنفیوزڈ ہے اور جو ان کی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری نہیں کرپارہے ہیں۔

مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا معاشی مشکلات دوسرے ممالک میں نہیں ہیں، بنگلہ دیش، بھات، نائیجیریا، افریقہ، ایتھوپیا اور افغانستان میں معاشی مشکلات نہیں ہیں صرف پاکستان میں معاشی مشکلات ہیں، اگر وہ ممالک لاک ڈاؤن بھی کرسکتے ہیں، معیشت کوبھی سنبھال سکتے ہیں اور اپنے عوام کو ریلیف بھی دے سکتے ہیں تو پاکستان کیونکہ نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ آج دیہاڑی دار طبقے کو سفید پوش کو وفاقی حکومت نے کچھ نہیں دیا اور اب پابندیوں میں نرمی کررہے ہیں اور جب لاک ڈاؤن تھا تو غریبوں کو ریلیف نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کورونا ریلیف آرڈیننس منظور نہیں کررہی ہے جو اسی وبا سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے ہے لیکن سندھ میں ریلیف کو پی ٹی آئی سبوتاژ کررہی ہے اور میں مطالبہ کرتا ہوں کہ گورنز سندھ آج ہی اس آرڈیننس کو منظور کریں۔

بعد ازاں اجلاس 13 مئی بروز بدھ تک ملتوی کردیا گیا۔

قبل ازیں اراکین قومی اسمبلی کو داخلے کے لیے سینیٹائزر گیٹ نصب کیے گئے اور ایوان میں فاصلے پر بیٹھنے کے انتظامات کیے جاچکے ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے اراکین کو ماسک، دستانے اور سینیٹائزر دے گئے ہیں۔

قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے انتظامات کا جائزہ لیا اور کہا کہ ارکان کو ایوان کو فاصلے پر بٹھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا جس کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں اور لاجز میں بھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت فراہم کردی ہے اور قومی اسمبلی میں بھی ٹیسٹ کے لیے عملہ بھیج دیا گیا ہے۔

قاسم سوری نے کہا کہ شرکت کرنے والے تمام اراکین کی اسکریننگ کی اور ان کو ماسک، سینیٹائزر فراہم کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے رہنما فیصلہ کریں گے کہ اجلاس میں کتنے اراکین شریک ہوں گے۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹوئٹ میں اسمبلی اجلاس میں شریک نہ ہونے کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ میں پہلے دن سے ویڈیو لنک پر سیشن کا کہہ رہا ہوں، اپوزیشن کے دباؤ میں آ کر پارلیمانی کمیٹی نے غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا اور ملکی سیاسی قیادت کو غیر ضروری خطرے میں ڈال دیا۔

خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال سے متعلق بحث کے لیے اجلاس طلب کیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت سے قبل کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا تھا جس کے پیش نظر اراکین اسمبلی کے ٹیسٹ کیے گئے تھے اور گزشتہ روز دو اراکین کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

مزید پڑھیں:قومی اسمبلی کے دو اراکین اور متعدد ملازمین کورونا وائرس کا شکار

کورونا وائرس سے نہ صرف اراکین اسمبلی بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس کے ملازمین بھی متاثر ہوچکے ہیں جس میں قومی اسمبلی کے چیمبر اٹینڈنٹ سمیت دیگر شامل ہیں۔

اسلام آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے مزید اٹھ ملازمین کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں اور ان ملازمین کا تعلق قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹیریٹ سے ہے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر بھی گزشتہ ماہ کورونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے اور ان کے دو بچوں میں بھی کورونا کی موجودگی کی تصدیق کی گئی تھی۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں ہی متحدہ مجلس عمل کے رکن قومی اسمبلی منیر خان اورکزئی اور خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر آف پبلک ہیلتھ ڈاکٹر اکرام اللہ خان کو بھی کورونا وائرس ہوا تھا۔

علاوہ ازیں وزیر صحت خیبرپختونخوا نے بتایا تھا کہ ان کے معاون خصوصی کامران خان بنگش میں بھی کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی تھی۔

مارچ کے مہینے میں ضلع مردان سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی عبدالسلام آفریدی بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے۔

رواں ماہ 7مئی کو صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر ہاؤسنگ ڈاکٹر امجد علی میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی اور وہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں۔

اس سے قبل وزیر تعلیم سندھ سعید غنی میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور آئسولیشن میں رہنے کے دوران وہ وائرس سے صحتیاب ہو گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں