کیا کورونا پر قابو پانے کیلئے پاکستان میں 'ہرڈ امیونٹی' پر غور کیا جارہا ہے؟

اپ ڈیٹ 13 مئ 2020
حیدرآباد کے ایک بازار کا منظر — آئی این پی فوٹو
حیدرآباد کے ایک بازار کا منظر — آئی این پی فوٹو

حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد زندگی کسی حد تک معمول پر آچکی ہے مگر اس کے ساتھ یہ خدشات بھی بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان میں بہت تیزی کے ساتھ سب کچھ کھولا جارہا ہے اور نادانستہ طور پر کووڈ 19 کے حوالے سے ایک متنازع 'ہرڈ امیونٹی' پالیسی کی جانب بڑھا جارہا ہے۔

ہرڈ امیونٹی یا اجتماعی مدافعت کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کی آبادی کے بڑے حصے میں وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے انہیں اس سے متاثر ہونا دیا جائے، جس سے صحتیاب ہونے کے بعد ان کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعتی اینٹی باڈیز بن جائیں گی۔

دنیا کی کوئی بھی حکومت کھلے عام اس متنازع پالیسی کی حمایت نہیں کرتی کیونکہ اس سے انسانی زندگیوں کو خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

ہرڈ امیونٹی کے پیچھے یہ خیال ہوتا ہے کہ کسی آبادی کے 70 فیصد حصے کو کسی بیماری جیسے کووڈ 19 کا شکار ہونے دیا جائے، جس سے ان کے اندر وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوگی اور اتنی زیادہ آبادی میں مدافعت ہیدا ہونے سے باقی افراد بھی محفوظ ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں یہ وبا بتدریج ختم ہوجائے گی۔

پاکستان میں کوئی بھی حکومتی عہدیدار تسلیم نہیں کرتا کہ اس متنازع حکمت عملی پر بطور پالیسی آپشن بات کی گئی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا سے جب پوچھا گیا کہ کیا حکومت ہرڈ امیونٹی پر غور کررہی ہے، تو انہوں نے کہا 'بالکل بھی نہیں، یہ حکومتی پالیسی نہیں، ہم نہ تو اس خیال کو آگے بڑھا رہے ہیں اور نہ ہی اس پر بات چیت کررہے ہیں'۔

مگر حزب اختلاف کی جماعتوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے اور منگل کو مسلم لیگ نواز کے سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے سینیٹ میں خطاب کے دوران خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت خود کو ہرڈ امیونٹی کی پالیسی کی جانب لے جارہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔

اعلیٰ حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ اموات کی کم شرح نے لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کے عمل میں مدد دی۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ اموات کی کم تعداد پر سمجھا جارہا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں لاک ڈاؤن موثر رہا اور بیماری کی شرح کو دبا دیا یا کسی طرح پاکستانی شہریوں میں اس انفیکشن کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی ہے

یہ عہدیداران ہرڈ امیونٹی کے خیال پر اجلاسوں میں تبادلہ خیال کی تردید کرتے ہیں مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ جلد یا بدیر وائرس سے تحفظ مل جائے گا اور اموات کی کم شرح یقین دہانی کراتی ہے کہ کووڈ 19 کی صورتحال قابو میں ہے۔

ایک عہدیدار نے کہا 'وائرس آگے بڑھتا رہا تو ہر ایک میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجائے گی'۔

مگر کیا حکومت فکرمند نہیں کہ وہ کس خطرناک راستے کی جانب بڑھ رہی ہے؟ تو ایک عہدیدار نے کہا کہ متعدد ممالک آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کو نرم کررہے ہیں حالانکہ بیماری کی شرح پر ابھی قابو نہیں پایا گیا 'دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے'۔

مگر کیا یہ ہرڈ امیونٹی کی جانب بتدریج بڑھنے کا عمل ہے؟ عہدیدار کا اصرار تھا کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ کھل جائیں۔

اگرچہ ایسے واضح سائنسی شواہد تو موجود نہیں، مگر عہدیدار نے کہا کہ کووڈ 19 پر فیصلے کرنے والوں نے کچھ چیزوں کو نوٹس کیا ہے، مثال کے طور پر امریکا میں کیلیفورنیا اور ٹیکساس میں اس بیماری کی شرح نیویارک کے مقابلے میں کم ہے 'ان دونوں ریاستوں کا موسم نیویارک کے مقابلے میں زیادہ گرم، اسی طرح نئی دہلی اور کراچی میں کووڈ کے پھیلاؤ کی شرح یکساں ہے، مگر نئی دہلی میں اموت کی شرح کراچی سے کم ہے،، یعنی جہاں درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے، وائرس کا اثر اتنا ہی کم ہوتا ہے، تو ہمارے پاس لاک ڈاؤن میں نرمی سے بہتر کوئی متبادل نہیں رہ جاتا'۔

ہرڈ امیونٹی کا تصور نیا نہیں، برطانیہ نے اسے پہلے اپنایا تھا اور وبا کے آغاز میں اس وقت ترک کردیا جب یہ تخمینہ سامنے آیا کہ اس سے طبی نظام پر بوجھ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔

بھارت میں بھی اسے اپنانے کے لیے منصوبہ پیش کیا گیا۔

اسی طرح بین الاقوامی میڈیا میں سویڈن کا ذکر بھی ایسے ملک کے طور پر کیا جاتا ہے جس کی پالیسی اس سوچ کے بہت قریب ہے۔

سویڈن میں کسی قسم کا لاک ڈاؤن نہیں لگایا گیا، بس شہریوں کو سماجی دوری کی مشق پر زور دیا گیا جبکہ معمر افراد کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی۔

جیسے اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ اس پالیسی کے پیچھے یہ خیال ہوتا ہے کہ آبادی کا بہت بڑا حصہ وائرس کا شکار ہوگا تو صحتیاب ہونے پر مریضوں میں ایسی اینٹی باڈیز بن جائیں گی جو کچھ عرصے تک اس وائرس سے محفوظ رکھیں گی۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فی الحال یہ واضح نہیں کہ نئے کورونا وائرس کے شکار افراد میں اس قسم کی مدافعت (امیونٹی) بنتی ہے یا نہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ ابھی ایسے شواہد موجود نہیں جن سے معلوم ہو کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد میں ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں، جو دوسری بار بیمار ہونے سے بچاسکیں۔

درحقیقت اس پالیسی پر عملدرآمد خطرے سے خالی نہیں، جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ بیمار ہوں گے تو ہسپتالوں میں علاج کے لیے جگہ ہی نہیں ملے گی اور توقعات سے زیادہ ہلاکتیں بھی ہوسکتی ہیں۔

پاکستان میں اس حوالے سے دیکھا جائے تو ملک کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ ہے اور 70 فیصد آبادی (جو ہرڈ امیونٹی کے لیے ضروری ہے) 15 کروڑ 46 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔

یعنی 15 کروڑ سے زائد پاکستانی شہری بیمار ہوں گے تو ہرڈ امیونٹی پر عملدرآمد ہوگا۔

اس کو مزید پھیلایا جائے تو اس وقت پاکستان میں حکومتی اعدادوشمار کے مطابق کووڈ 19 سے ہلاکتوں کی شرح 2.2 فیصد ہے، مگر ممکنہ طور پر اس بیماری سے ہلاکتوں کی شرح اس سے کم ہوگی۔

ایک وبائی امراض کے ماہر کے مطابق پاکستان میں کووڈ کیسز کی اصل تعداد مصدقہ کیسز سے 10 گنا زیادہ ہوسکتی ہے اور اس سے ہرڈ امیونٹی سے ہلاکتوں کی شرح کا اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔

یعنی ابھی اگر شرح 2.2 فیصد ہے تو کیسز کی تعداد میں دگنا اضافے سے یہ شرح 1.1 فیصد پر آجاتی ہے، اگر کیسز کو 10 گنا زیادہ سمجھا جائے تو یہ اموات کی شرح 0.22 فیصد ہوجاتی ہے، یعنی ہرڈ امیونٹی سے اموات کی شرح کا تعین O.22 سے ایک فیصد تک لگانا ہوگا۔

اگر 0.22 فیصد کو دیکھا جائے تو 70 فیصد یعنی 15 کروڑ سے زائد آبادی میں یہ تعداد 3 لاکھ 40 ہزار 174 بنتی ہے جبکہ ایک فیصد شرح اموات 15 لاکھ 46 لاکھ 246 بنتی ہے۔

یہ ایک سرسری تخمینہ ہے جس میں متعدد سائنسی عناصر کو شامل نہیں کیا گیا مگر اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ پالیسی کتنی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے۔

طبی ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی وقت ہم سب وائرس سے محفوظ ہوجائیں گے ، مگر مسئلہ وقت کا ہے۔

اگر کوئی آبادی ویکسین کی دستیابی سے قبل امیونٹی کی جانب بڑھتی ہے تو اس کی قیمت انسانی جانوں کی شکل میں ادا کرنا ہوگی جو کہ تباہ کن بھی ہوسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی جانب سے وبا کو پھیلنے سے روکنے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ طبی مراکز پر بوجھ بہت زیادہ نہ بڑھ سکے۔

کے پی کے کے وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کہتے ہیں 'مجھے ہرڈ امیونٹی کی پروا نہیں بلکہ اس بات کی پروا زیادہ ہے کہ ہمارے ہسپتال مریضوں کے بوجھ کو کیسے سنبھالیں گے'۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت حالات کو کنٹرول میں محسوس کرتی ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) سے منسلک ایک عہدیدار نے کہا 'طبی مراکز حالات پر اچھی طرح قابو پارہے ہیں'۔

این سی او سی کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں آج 21 ہزار ہسپتال بیڈز کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے مختص ہیں جبکہ اس وقت زیرعلاج مریضوں کی تعداد ساڑھے 6 ہزار سے زائد ہے۔

اسی طرح کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے دستیاب وینٹی لیٹرز کی تعداد 1400 ہے جبکہ 93 مریض وینٹی لیٹرز پر ہیں، یعنی ابھی گنجائش موجود ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ عالمی سطح پر کووڈ 19 کے شکار افراد کو وینٹی لیٹرز پر رکھے جانے کی شرح 4.8 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں ابھی یہ شرح 2.5 فیصد ہے، یہ اعدادوشمار حکام جیسے ڈاکٹر ظفر مرزا اور تیمور سلیم جھگڑا میں محتاط خوش امیدی کا باعث ہیں، مگر کیا یہ سلسلہ آگے بھی برقرار رہ سکے گا؟

لگ بھگ تمام عہدیداران متفق ہیں کہ اگلے 2 سے 4 ہفتے بہت اہم ہیں کیونکہ اس عرصے میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے اثرات سامنے آئیں گے۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ رمضان میں مساجد کو کھولنے کے اثرات عید پر واضح نظر آئیں گے۔

رواں ہفتے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اثر جون کے دوسرے ہفتے میں دیکھا جاسکے گا اور جیسا حالیہ دنوں میں ایس او پیز اور سماجی دوری کی خلاف ورزیاں نظر آرہی ہیں، وہ طبی مراکز پر خطرناک حد تک دباؤ میں اضافے کا عندیہ دیتی ہیں۔

ایک عہدیدار نے اعتراف کیا 'اگر ہسپتالوں میں اچانک رش بڑھ گیا تو ہم مسائل کا شکار ہوں گے، اگر ہسپتالوں کے 75 فیصد سے زیادہ بستر کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے درکار ہوں گے تو ہمیں سنگین بحران کا سامنا ہوگا'۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ بیمار افراد اور اموات کی تعداد اب تک تخمینے سے کم رہی ہیں 'اگر اگلے چند ہفتوں تک اعدادوشمار تخمینے سے زیادہ ہوگئے تو ہمارے لیے خطرناک صورتحال پیدا ہوجائے گی'۔

یہ مضمون 13 مئی کو ڈان اخبار میں شائع ہوا

تبصرے (0) بند ہیں