کووڈ 19 کے مریضوں میں ایک اور جان لیوا پیچیدگی کا انکشاف

13 مئ 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے پی فائل فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے پی فائل فوٹو

نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے مریضوں میں گردے فیل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اکیوٹ کڈنی فیلیئر یا اے کے آئی کووڈ 19 کی ایک سنگین پیچیدگی ہے جس پر زیادہ توجہ نہیں گئی اور اچھی طرح سمجھا بھی نہیں گیا۔

تحقیق کے مطابق گردے فیل ہونے کا سامنا کرنے والے مریضوں میں کووڈ 19 کے نتیجے میں اموات کی شرح 50 فیصد ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں خصوصاً آئی سی یو میں زیرعلاج مریضوں میں اے کے آئی کا خطرہ ہوتا ہے، درحقیقت 25 سے 30 فیصد مریضوں میں اس کا خطرہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے چین میں حال ہی میں ہونے والی 2 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا جس میں کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے مریضوں کے گردوں کے نمونوں کی تفصیلات دی گئی تھیں۔

اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں اے کے آئی کی جو قسم نظر آرہی ہے وہ بہت پیچیدہ اور اس میں ایسے متعدد عناصر موجود ہیں جو عام اے کے آئی مریضوں میں نظر نہیں آتے۔

ان منفرد عناصر میں کورونا وائرس کا گردوں پر حملہ، خون کے لوتھڑے بننا اور ورم قابل ذکر ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل آف دی امریکن سوسائٹی آف نیفرولوجی میں شائع ہوئے اور پہلی بار اس ممکنہ میکنزم پر روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح گردے فیل ہونے کا مسئلہ کووڈ 19 کے مریضوں کو شکار کرسکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نئے نتائج سے طبی عملے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ کووڈ 19 کے مریضوں کے گردوں پر توجہ بڑھائیں اور گردوں کے افعال اور ساخت کے حوالے سے مناسب معلومات جمع کرنی چاہیے، کہ کس طرح اے کے آئی ان مریضوں میں نمودار ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس میکنزم کو زیادہ بہتر سمجھنے سے موثر علاج کی تشکیل میں مدد مل سکے گی خاص طور پر آئی سی یو میں زیرعلاج مریضوں کے لیے یہ بہت اہم ہے، کیونکہ ان میں سے بیشتر مریضوں کو ڈائیلاسز کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

اس سے قبل اپریل میں چینی سائنسدانوں کی جریدے جرنل کڈننی انٹرنیشنل میں شائع تحقیق میں کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے افراد کا بعد از مرگ پوسٹمارٹم کیا گیا اور 26 میں سے 9 میں گردوں کو نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا۔

دوسری جانب واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے یالے اسکول آف میڈیسین کے گردوں کے امراض کے ماہر ایلن کلیگر نے کہا کہ کووڈ 19 کے شکار ہوکر ہسپتال میں داخل ہونے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کے پیشاب میں خون یا پروٹین موجود ہوتا ہے جو گردوں کو پہنچنے والے ابتدائی نقصان کا عندیہ ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیویارک اور چین کے شہر ووہان میں آئی سی یو میں داخل ہونے والے 14 سے 30 فیصد مریضوں میں گردوں کے افعال ختم ہوگئے اور ڈائیلاسز کی ضرورت پڑی۔

نیویارک کے ہسپتالوں میں آئی سی یو یونٹس میں گردوں کے فیلیئر کا علاج اتنا زیادہ ہورہا ہے کہ وہاں ڈائیلاسز کے لیے امریکا بھر سے رضاکاروں کو فوری طلب کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کے نتیجے میں اس سیال کی کمی خطرناک حد تک کمی ہوگئی جو رینل تھراپی کو جاری رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا 'اس مسئلے کے شکار افراد کی تعداد اتی زیادہ ہے جو میں پہلے نہیں دیکھی، میرے خیال میں یہ بالکل ممکن ہے کہ یہ وائرس گردوں کے خلیات سے منسلک ہوکر عضو پر حملہ آور ہوتا ہے'۔

مگر طب کی دنیا میں عام طور پر اس طرح کے خیال کو اس وقت تک درست نہیں مانا جاتا جب تک بڑے پیمانے پر تحقیق سے اسے ثابت نہ کیا جائے۔

ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ متعدد ممکنہ وجوہات ایسی ہیں جو عضو اور ٹشو کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، جیسے نظام تنفس کا متاثر ہونا، ادویات کا استعمال، شدید بخار، آئی سی یو میں داخل ہونے کا تنائو اور مدافعتی پروٹین کا بہت زیادہ متحرک ہونا۔

سانسدانوں نے دریافت کیا کہ انفیکشن سے لڑنے کے لیے مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایسے مرکبات cytokines کا سیلاب آجاتا ہے جن کی مقدار بڑھنے سے متعدد اعضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کے سنگین مریضوں میں اکثر اس مسئلے نتیجے میں لوگوں کو آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں