افغانستان: 'زچگی وارڈ پر حملہ کرنے والے ماؤں اور بچوں کو ہی مارنے آئے تھے‘

16 مئ 2020
دہشت گردوں کے اس حملے میں 11 مائیں زندگی کی بازی ہار گئیں— فوٹو: ای پی اے
دہشت گردوں کے اس حملے میں 11 مائیں زندگی کی بازی ہار گئیں— فوٹو: ای پی اے

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سرکاری ہسپتال کے زچگی وارڈ میں دہشت گردوں کی جانب سے 24 ماؤں اور بچوں کے قتل کی واردات انتہائی خوفناک تھی۔

دہشت گردوں کی گولیوں سے چھلنی ہونے والے زچگی وارڈ سے جب فیڈرک بینٹ نے نکلنے کی کوشش کی تو انہیں کچھ اور ہی محسوس ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ حملہ آور ہسپتال کے دیگر متعدد وارڈز سے ہوتے ہوئے دشت برچی ہسپتال کے زچگی وارڈ تک آئے۔

’ان کے قریب صرف یہی ایک مقصد تھا اور انہوں نے یہ غلطی سے نہیں کیا تھا‘

مزید پڑھیں: حملے میں یتیم ہوجانے والے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے والی افغان خواتین

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں میڈیسن سان فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) پروگرام کے سربراہ فیڈرک بینٹ نے بتایا کہ دہشت گردوں نے منظم انداز میں بچوں اور ماؤں کے وارڈ پر فائرنگ کی۔

ان کے مطابق حملہ آور منظم منصوبہ بندی کے تحت زچگی وارڈ تک گئے اور انہوں نے بستروں پر موجود ماؤں اور بچوں کو نشانہ بنایا۔

انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ ماؤں کو مارنے آئے تھے۔

’حملے کے وقت آمنہ محض 2 گھنٹے کی ہوئی تھیں‘

نازیہ بی بی اور رفیع اللہ کے ہاں پیدا ہونے والا تیسرا بچہ تھا، ان کے ہاں پہلے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔

نازیہ اپنی والدہ کے ساتھ ہسپتال آئی تھیں اور ان کے پہنچنے کے بعد 8 بجے ہی ان کے ہاں آمنہ کی پیدائش ہوئی تھی۔

اگرچہ وہ دن رفیع اللہ کے لیے خوشی کا دن ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے 10 بجے ہسپتال میں فائرنگ اور دھماکے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو رفیع اللہ سمیت سب لوگ وہاں پہنچ گئے۔

رفیع اللہ کے کزن نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ وہ حملے کے دوران ایک سے دوسری طرف بھاگتے رہے تاکہ وہ کسی طرح اندر جا سکیں مگر انہیں اندر نہیں جانے دیا گیا۔

2014 سے ایم ایس ایف کی جانب سے چلائے جانے والے اس ہسپتال کے 55 بستروں والے زچگی وارڈ میں یہ دہشت گرد موجود تھے۔

اس وقت 26 حاملہ خواتین اس وارڈ میں موجود تھیں، ان میں 10 محفوظ کمروں میں جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئیں جبکہ باقی کی 16 شاید اتنی خوش قسمت نہیں تھیں جن میں نازیہ بی بی اور آمنہ بھی شامل تھیں۔

ان 16 خواتین میں 3 مائیں ایسی تھیں جنہیں بچوں کی پیٹ میں موجودگی کے دوران ہی گولی ماردی گئی۔

بی بی نازیہ ان 8 ماؤں میں سے ایک تھیں، جو اس دوران جان کی بازی ہار گئیں، چھوٹی آمنہ کو ٹانگوں پر گولیاں لگی جبکہ 5 مزید افراد زخمی بھی ہوئے، اس کے علاوہ 5 لڑکے بھی اس دہشت گردی میں مارے گئے، جو کچھ دیر قبل ہی پیدا ہوئے تھے۔

ادھر خدیجہ نامی ایک خاتون نے رائٹرز کو بتایا کہ دہشت گرد نے گولی مارنے کے لیے اس کو نشانہ بنایا لیکن پھر دوسروں کی جانب پلٹ کر انہیں مارنے لگا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: میٹرنٹی ہوم اور جنازے میں حملوں سے 37 افراد ہلاک

واضح رہے کہ ان دہشت گردوں اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان 4 گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا، اس دوران زچگی وارڈ کے عملے میں سے کئی خواتین اور مریضوں نے خود کو محفوظ کیا جبکہ تمام دہشت گرد مارے گئے۔

ایک دائی نے نام نہ بتانے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ اس حملے کے دوران ہسپتال میں ایک اور بچے کی ولادت بھی ہوئی اور خواتین نے بڑی مشکل سے اس ماں کی ڈیلوری محفوظ کمرے میں کروائی جبکہ والدہ کی جانب سے یہ کوشش بھی کی گئی کہ شور نہ ہو۔

دائی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ہم نے کچھ ٹوائلٹ پیپر اور اپنے اسکارف کی مدد سے اس بچے کو سنبھالا’۔

فیڈرک بینٹ نے مزید کہا کہ افغانستان اس سے قبل کئی دہشت گرد حملوں کا شکار ہوچکا ہے لیکن جو کچھ منگل کو ہوا وہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ دہشت گرد ہسپتال کے میٹرنیٹی وارڈ پر حملہ کریں گے۔

بی بی سی کی جانب سے گزشتہ سال کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ افغانستان میں اگست کے مہینے میں اوسطاً ہر دن 74 مرد، خواتین اور بچے مارے گئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں