مشرقی افغانستان میں طالبان کا حملہ، حساس ادارے کے 7 اہلکار ہلاک

اپ ڈیٹ 18 مئ 2020
کابل میں وزارت داخلہ اور غزنی میں صحت حکام نے بھی کار بم دھماکے کی تصدیق کی۔ فائل فوٹو:اے ایف پی
کابل میں وزارت داخلہ اور غزنی میں صحت حکام نے بھی کار بم دھماکے کی تصدیق کی۔ فائل فوٹو:اے ایف پی

طالبان نے افغان خفیہ ایجنسی کی چوکی پر حملے کا دعوٰی کیا جبکہ انہوں نے اقتدار میں شریک نئی حکومت سے بات چیت کی راہ ہموار کرنے کے لیے قیدیوں کا تبادلہ تیز کرنے کی اپیل بھی کی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مشرقی صوبے غزنی کے گورنر کے ترجمان وحید اللہ جمعہ زادہ نے بتایا کہ صوبے میں کار بم دھماکے سے حساس ادارے کے کم از کم 7 اہلکار ہلاک ہوئے اور 40 کے قریب زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے اپنے حملے میں ایک فوجی گاڑی کا استعمال کیا اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی یونٹ کو نشانہ بنایا ہے۔

کابل میں وزارت داخلہ اور غزنی میں صحت حکام نے بھی کار بم دھماکے کی تصدیق کی۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ ان کے مجاہدین نے یہ حملہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملے میں افغان فوج کے 13 اہلکار ہلاک

یہ حملہ صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے کابل میں اقتدار میں شراکت کرنے کے ایک نئے معاہدے جس کے بعد انہوں نے کئی ماہ تک جاری رہنے والے اس تنازع کو ختم کیا تھا، پر دستخط کرنے کے ایک دن بعد سامنے آیا۔

اس معاہدے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی رکاوٹوں میں سے ایک پر قابو پایا گیا ہے جس نے پیر کو خبردار کیا تھا کہ جب تک قیدیوں تبادلہ مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک بات چیت نہیں ہوسکتی۔

اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہونے والے معاہدے پر طالبان ترجمان سہیل شاہین نے رد عمل دیتے ٹوئٹر پر کہا کہ ’جو کچھ کابل میں ہورہا ہے وہ صرف ماضی کے ناکام تجربات کا سلسلہ ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’افغان فرقین کو مسئلے پر اصل اور سنجیدہ حل پر توجہ دینی چاہیے اور بات چیت کا آغاز ہونا چاہئے‘۔

گذشتہ ہفتے صدر اشرف غنی نے دو حملوں کے بعد سیکیورٹی فورسز کو جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا حکم دیا تھا۔

کابل کے ایک اسپتال پر دن دہاڑے حملے کے نتیجے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں ماؤں اور نوزائیدہ بھی شامل ہیں۔

اس حملے، جس پر بین الاقوامی سطح غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا، کے بعد ایک جنازے میں خودکش بم دھماکا ہوا جس میں کم از کم 32 سوگوار ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت نے 100 طالبان قیدیوں کو رہا کردیا

طالبان نے دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور اشرف غنی نے داعش کو اس کا قصور وار ٹھہرایا تھا۔

اشرف غنی کے احکامات کے بعد طالبان نے خبردار کیا کہ وہ افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں تیزی لائیں گے۔

طالبان کے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کے بعد افغانستان میں حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اس معاہدے کا مقصد حکومت اور عسکریت پسندوں کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا۔

امریکا اپنی طویل ترین جنگ میں سے خودکو باہر نکالنا چاہتا ہے، نے امید ظاہر کی کہ اب یہ مذاکرات حکومت کی سیاسی پیشرفت کے بعد آگے بڑھ سکتے ہیں۔

پاور شیئرنگ کے اس نئے معاہدے میں یہ عہد کیا گیا ہے کہ عبداللہ امن عمل کی قیادت کریں گے اور وہ کابینہ کے 50 فیصد عہدوں کو پُر کریں گے۔

ان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو بتایا کہ ’تنازع کے خاتمے کے لیے امریکا کی ترجیح سیاسی تصفیہ ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں