ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کی غیرملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ کی یقین دہانی

اپ ڈیٹ 26 مئ 2020
ہانگ کانگ میں شہریوں نے احتجاج کیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
ہانگ کانگ میں شہریوں نے احتجاج کیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام نے غیر ملکی حکومتوں اور سرمایہ کاروں کو چین کے مجوزہ قانون سے تحفظ دینے کی یقین دہانی کروا دی۔

خبر ایجنسی اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام کا کہنا تھا کہ متنازع قانون صرف خلاف ورزی کرنے والے افراد کو نشانہ بنائے گا، لیکن انہوں نے اس قانون کے تحت ملنے والی سزا کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

اس سے قبل ہانگ کانگ میں چین کی ملٹری گریژن کے کمانڈر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 'قانون کے تحت کسی قسم کی علیحدگی پسندی کی بات کرنے والوں کو سزا دی جائے گی'۔

مزید پڑھیں:چین کا مجوزہ قانون: تائیوان کا ہانگ کانگ کے لوگوں کو 'ضروری مدد' فراہم کرنے کا اعلان

چینی کمانڈر شن ڈاؤسیانگ نے سرکاری ٹی وی کو بتایا تھا کہ 'گریژن افسران قومی سلامتی کے تحفظ کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پرعزم ہیں'۔

رپورٹس کے مطابق چینی پارلیمنٹ کے سیشن کی تیاری کے اجلاس میں ایک ایجنڈا شامل کیا گیا ہے جس میں ’ہانگ کانگ (نیم خود مختار خطے) کے لیے قانونی نظام کو بہتر بنانے اور ان کے نفاذ کے طریقے کو قائم‘ کرنے سے متعلق بل پر نظرثانی کی جائے گی۔

چین کے اس اقدام پر ہانگ کانگ کے عوام، کاروباری شخصیات اور کئی مغربی ممالک نے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اس متنازع قانون سے شہر میں کاروباری آزادی ختم ہوجائے گی۔

ہانگ کانگ کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے قانون بنانے کے اعلان کے بعد 5 برسوں میں پہلی مرتبہ اسٹاک ایکسچینج میں انتہائی مندی کا رجحان رہا تھا۔

چیف ایگزیکٹو کیری لام کا کہنا تھا کہ شہر میں کاروباری آزادی کے خاتمے سے متعلق خدشات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہانگ کانگ کی آزادی محفوظ ہوگی اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، عوام کے حقوق اور آزادی سمیت دیگر اقدار پر کوئی قدغن نہیں ہوگی'۔

مجوزہ قانون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'صرف قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نشانہ بنایا جائے گا جبکہ قانون اس کا احترام کرنے والے پرامن شہریوں کو تحفظ دیتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں :امریکا کی چین کو ہانگ کانگ پر قانون سازی کے معاملے پر دھمکی

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت مخالف احتجاج کی اجازت ہوگی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کن خیالات کو قانون کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔

سابق سیکریٹری برائے انصاف ایلسی لیونگ کا کہنا تھا کہ نئے قانون میں مقامی حکومت کو نظر انداز کرنے کی کوششوں پر شقیں شامل ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میرا نہیں خیال کہ مظاہرین کے نعرے اتنے اہم ہیں لیکن نعرے مختلف رویوں سے جڑے ہوئے ہوں تو وہ ہانگ کانگ کی حکومت کی حکم عدولی ہوگی'۔

واضح رہے کہ چین نے اپنے سالانہ پارلیمانی اجلاس میں ہانگ کانگ کے لیے قومی سلامتی کے قانون کی تجویز پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

چین کے امور خارجہ کے نائب وزیر کا کہنا تھا کہ نئی صورتحال اور تقاضوں کے تحت نئے اقدامات ضروری ہیں اور بعض فیصلے قومی سطح پر لینا بہت ہی ضروری ہوگئے ہیں۔

دوسری جانب ہانگ کانگ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے بیجنگ کی جانب سے نئے قومی سلامتی قانون کے منصوبے کے خلاف ریلی نکالی تھی، جس پر ہانگ کانگ پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی تھی اور واٹر کینن کا استعمال کیا تھا۔

مزید پڑھیں:چین کا ہانگ کانگ کیلئے نئے سیکیورٹی قوانین لانے کا منصوبہ

غیر سرکاری تنظیم 'ہانگ کانگ واچ' کے ڈائریکٹر جانی پیٹرسن کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ کی قانون ساز کونسل کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سیکیورٹی سے متعلق قانون سازی کا فیصلہ ’بے مثال اور انتہائی متنازع مداخلت ہے‘۔

خیال رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے اس شہر کو چین کے حوالے کیا تھا اور چین یہاں 'ایک ملک، دو نظام' فریم ورک کے تحت حکمرانی کر رہا ہے اور ہانگ کانگ کو نیم خود مختاری حاصل ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں ہانگ کانگ میں مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرے کیے گئے تھے، جس نے جمہوری سوچ رکھنے والے ہانگ کانگ کے عوام اور بیجنگ کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان شدید اختلافات کو واضح کردیا تھا۔

ہانگ کانگ میں اس احتجاج کا آغاز پرامن طور پر ہوا تھا تاہم حکومت کے سخت ردعمل کے بعد یہ احتجاج و مظاہرے پرتشدد ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں