چینی پر سبسڈی سے متعلق مقدمات دائر کیے جائیں گے، معاون خصوصی

اپ ڈیٹ 27 مئ 2020
شہزاد اکبر نے کہا کہ مقمدات بنیں گے—فوٹو:ڈان نیوز
شہزاد اکبر نے کہا کہ مقمدات بنیں گے—فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں چینی پر ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی پر مقدمات بنیں گے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرس میں شہزاد اکبر نے کہا کہ 'سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت یہ کمیشن بنا کر اس کی رپورٹ عام کرسکتی ہے تو مقدمے نہ بنائیں'۔

کمیشن کی رپورٹ کے تحت مقدمات قائم کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن جب فیصلہ ہوگا تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ پرانی حکومتوں کی سبسڈی مقدمات کے لیے چلی جائے اور اس حکومت کی سبسڈی نہیں جائے'۔

مزید پڑھیں:اپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دے دیا

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ مقدمات تو بننے ہیں، چاہے نیب یا ایف آئی اے کے پاس جائیں تاہم کس ادارے کے پاس جائیں گے ابھی فیصلہ نہیں ہوا'۔

پنجاب حکومت کی سبسڈی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'کمیشن میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ سندھ کو بلایاگیا لیکن مراد علی شاہ پیش نہیں ہوئے جبکہ عثمان بزدار پیش ہوئے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیراعلیٰ پنجاب نے کمیشن کے سوالات کے جواب دیے لیکن کمیشن نے ان کی پیداواری لاگت پر جائزے کی بات کو نہیں مانا کیونکہ انہوں نے پچھلے سال کی لاگت بتائی تھی'۔

معاون خصوصی نے کہا کہ 'پیداواری لاگت پر ہم انہیں چھوڑ رہے ہیں اور ان سے سوال بنتا ہے اور سیکریٹری نے اپنی غلطی مان لی ہے' لیکن مقدمات سب پر ہوں گے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور ایس ای سی پی کی سفارش پر وفاقی حکومت کسی کا بھی نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالے گی۔

انہوں نے کہا کہ 'کمیشن نے پچھلے 5 سال کی سبسڈیز کا ٹی او آرز کے تحت جائزہ لیا اور تمام شواہد اکٹھے کیے اور پچھلے 5 برسوں میں 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس 29 ارب کی سبسڈی میں سے 2.4 ارب روپے کی سبسڈی ہمارے دور حکومت میں پنجاب میں دی گئی، وفاقی حکومت نے کوئی سبسڈی نہیں دی تاہم ایکسپورٹ سرپلس تھا اور برآمد کرنے کی اجازت دی'۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی

گزشتہ حکومت کی سبسڈی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 26.6 ارب روپے کی سبسڈی دی، یہ کمیشن دونوں سبسڈیز کن حالات میں کن کو دی گئی اس کو بیان کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شاہد خاقان عباسی ٹارزن بن کر کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے لیکن انہوں نے 20 ارب روپے کی سبسڈی دی تھی'۔

سابق وزیراعظم سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'شاہد خاقان عباسی امریکا سے تعلیم یافتہ ہیں اور خود کو انہوں نے لائق اعظم بھی قرار دیا ہوا ہے لیکن کمیشن کی رپورٹ میں ان کے کارنامے درج ہیں'۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ '2017 کی سبسڈی دی تو شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے اور انہوں نے خود کہا ہے کہ ای سی سی کی بھی خود سربراہی کرتا تھا اور ان کے بارے میں کمیشن نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ساتھ سلمان شہباز ہیں، وہ شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کرتے ہیں، فواد حسن فواد نے اسی وقت وزارت صنعت ایک خط تحریر کیا تھا کہ فوری طور پر پیداواری قیمت نکالی جائے اور 17 گریڈ کے افسر پر دباؤ ڈال کر فرضی لاگت پر دستخط کرادیے گئے اور 20 ارب کی سبسڈی دی گئی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کے ساتھ صرف 20 ارب کا ہاتھ نہیں ہوا بلکہ 4.10 ارب کا دھوکا ہوا اور ایسے میں سندھ حکومت کیسے پیچھے رہ سکتی تھی کیونکہ مراد علی شاہ بھی ایک لائق اعظم ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں دیے جبکہ میڈیا کے سامنے ٹارزن بن کر باتیں کررہے تھے۔

خیال رہے کہ ملک کی 2 بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے شوگر فرانزک کمیشن (ایس ایف سی) رپورٹ پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’گمراہ کن اور ’اصل مجرمان‘ کو محفوظ کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے نام رپورٹ میں شامل نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں نے اس وقت چینی کی برآمدات کی اجازت دی جب ملک میں اس کی قلت تھی۔

مزید پڑھیں:چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

ایس ایف سے چینی کی قلت اور ملک میں اس کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا جس نے چینی بحران کے ذمہ دار شوگر ملز مالکان کے نام افشا کیے تھے جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے اتحادی سیاستدان اور ان کے عزیز شامل تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’یہ پوری رپورٹ آنکھوں کا دھوکا اور اس اسکینڈل کے حقیقی مجرمان وزیراعظم، عثمان بزدار اور ان کی کابینہ کو بچانے کی کوشش ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اسکینڈل یہ نہیں تھا کہ سبسڈی دینا کیسے ملکی بلکہ اصلی جرم تھا، ’یہ مجرمانہ فیصلہ تھا کہ ملک میں چینی کی قلت کے دوران شوگر ایڈوائزری بورڈ کی تحریری تجویز کے خلاف چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی'۔

شاہد خاقان عباسی نے ایک بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ عثمان بزار اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو ’فوری طور پر گرفتار کرنا چاہیے‘ کیوں کہ انہوں نے ان تمام مبینہ فیصلوں کی منظوری دی جس سے چینی چوری کا راستہ نکلا۔

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضٰی وہاب نےردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پی ٹی آئی حکومت ملک میں ’انکوائری کمیشن اور ایگزیکٹو بورڈز کے ذریعے جھوٹ اور نااہلی کے جواز کا نیا رجحان قائم کررہی ہے۔

چینی بحران رپورٹ

واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔

بعد ازاں 5 اپریل کو وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ 25 اپریل کو اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

تاہم فرانزیک رپورٹ میں تاخیر ہوتی رہی اور بالآخر اسے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جہاں اسے عوام کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔

فرانزک رپورٹ کے بارے میں معاون خصوصی برائے احتساب نے بتایا کہ چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب چینی انکوائری کمیشن میں پیش، حکومت پنجاب کے کردار پر بیان ریکارڈ

معاون خصوصی نے کہا کہ رپورٹ میں صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے، ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کرکے اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے

انہوں نے کہا کہ شوگر کمیشن نے فرانزک آڈٹ کے بعد پچھلے سالوں کا جو تخمینہ لگایا ہے تو اس کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا اور 2019 میں کمیشن بننے کے بعد گنے کی خریداری مہنگی ہوئی تو اس کی زیادہ قیمت کے اثرات کا اطلاق چینی کی قیمت میں اضافے پر نہیں ہوتا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے، گنے کی خریداری کے لیے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے۔

معاون خصوصی نے مزید کہا کہ بیچ میں کمیشن ایجنٹس کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے گنا اور زیادہ کم دام میں خریدا جاتا اور نقصان کسان کو ہوتا ہے جو بہت مشکل سے کاشتکاری کا نظام چل رہا ہے، ایک نظام کے تحت اس سے کم قیمت پر گنا خریدا جاتا ہے اور چینی کی پیداواری لاگت میں قیمت زیادہ ظاہر کی جاتی ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ عوام کو کس طرح لُوٹا گیا اور وہ پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے، انکوائری کمیشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا آج سے پہلے آزاد آڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔

شہزاد اکبر نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں شامل 3 سالوں کے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ہے، شوگر ملز نے 18-2017 کی جو پیداواری لاگت دی وہ 51 روپے فی کلو جبکہ فرانزک آڈٹ نے اس کی قیمت 38 روپے متعین کی ہے جو تقریباً 13 روپے کا فرق ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گنا کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی جاتی ہے اور اس اضافی قیمت کو پیداواری لاگت میں شامل کیا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مصنوعات بگاس (گنے کی پھوک) اور مولیسس دونوں کی قیمت کو کم ظاہر کیا جاتا ہے جب شوگر کمیشن نے صحیح طریقے سے تعین کیا تو پیداواری لاگت میں فرق آگیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں