نئے نوول کورونا وائرس کی بنیاد پر کام کرنے والے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ جراثیم جانوروں سے انسانوں میں چھلانگ لگانے کے لیے بہت زیادہ مطابقت رکھتا تھا کیونکہ یہ اپنی ساخت بدل کر انسانی خلیات کو متاثر کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔

امریکا کے سائنسدانوں نے جانوروں کے جینیاتی تجزیے کرنے کے بعد اس بات کو دریافت کیا۔

ڈیوک یونیورسٹی، لوس آلموس نیشنل لیبارٹری، ٹیکساس یونیورسٹی اور نیویارک یونیورسٹی کی اس تحقیق میں تصدیق کی گئی ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں کو متاثر کرنے والے ایک کورونا وائرس کا قریبی رشتے دار ہے، مگر انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت اس نے ممکنہ طور پر پینگولین کے ذریعے حاصل کی۔

محققین نے دریافت کیا کہ نئے نوول کورونا وائرس نے یہ صلاحیت پینگولین کو متاثر کرنے والے کورونا وائرس کے ذریعے حاصل کی۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایک سے دوسرے جاندار میں منتقل ہونے سے وائرس کا جینیاتی میٹریل تبدیل ہوا اور اسے خلیات کو جکڑنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔

سائنسدانوں نے بتایا کہ انسانوں کے خلیات کو یہ وائرس ایک اسپائیک پروٹین کے ذریعے اپنا ہدف بناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے سارس نے چمگادڑوں سے civets یا مرس نے چمگادڑوں سے اونٹوں میں اور پھر انسانوں یں منتقل ہوئے، ایسا ہی اس نئی وبا میں بھی ہوا میں جس کے لیے وائرس کے جینیاتی میٹریل میں ارتقائی تبدیلیاں آئین، جس سے وہ انسانی خلیات کو متاثر کرنے کے قابل ہوگیا۔

جریدے جرنل سائنس ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں وائرس کے ارتقائی راستوں کا سراغ لگایا گیا تاکہ مستقبل مین اس طرح کی وبا کی روک تھام کی جاسکے۔

محققین نے دریافت کیا کہ پینگولین میں موجود کورونا وائرسز اس نئے نوول کورونا وائرس سے بہت زیادہ مختلف ہیں، تاہم اس جاندار میں ایک ریسیپٹر ہوتا ہے جو اسپائیک پروٹین کو خلیات کو جکڑنے میں مدد دیتا ہے اور انسانوں میں یہی عمل ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پینگولین میں اس ریسیپٹر کی مدد سے یہ وائرس انسانی نظام تنفس اور دیگر اعضا کے خلیات کو اس پروٹین کے ذریعے ہدف بنانے کے قابل ہوگیا۔

سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ چمگادڑوں میں نئے نوول کورونا سے ملتے جلتے وائرس ہوتے ہیں مگر وہاں ریسیپٹر کو جکڑنے والا مقام بہت مختلف ہوتا ہے اور وہ موثر طریقے سے انسانی خلیات کو شکار نہیں کرسکتا۔

اس کے مقابلے میں نیا کورونا وائرس چمگادڑ اور پینگولین کے وائرسز کے امتزاج سے مل کر بنا جس کے پاس انسانوں کو متاثر کرنے والا ہتھیار موجود تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس وائرس کے حصوں میں ایسے امینو ایسڈ سیکونسز کی مماثلت پائی جاتی ہے جو انسانوں، چمگادڑوں اور پینگولینز کو متاثر کرتا ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرسز ملتے جلتے میزبان میں رہے اور اس ططرح یہ نیا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کے قابل ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پینگولینز میں کورونا وائرس کے سیکونس کے نمونے پہلے ہی سانے آچکے ہیں مگر سائنسی برادری تاحال اس نئے وائرس کے ارتقا کے حوالے سے منقسم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ اس وائرس کی ارتقائی تاریخ کافی بھرپور ہے جس نے چمگادڑ اور پینگولین کے کورونا وائرسز کے جینیاتی میٹریلز میں ردوبدل کرکے انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت حاصل کی۔

اس سے قبل مئی کے وسط میں ہانگ کانگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ کورونا وائرس ممکنہ طور پر ایشیا میں پائے جانے والی چمگادڑوں کی ایک قسم سے پھیلا۔

یونیورسٹی کے مائیکرو بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ میں خلیات کے ایک ایسے گروپ کو تیار کیا گیا جو چینی ہارس شو نامی چمگادڑ کی آنتوں میں پائے جانے والے خلیات سے مماثلت رکھتا تھا۔

چمگادڑوں کی یہ قسم چین، نیپال، ویت نام اور بھارت سمیت متعدد ممالک میں پائی جاتی ہے۔

محقین ان خلیات کی ساخت کو نئے نوول کورونا وائرس یعنی سارس کوو 2 سے متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔

محققین نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا کہ نتائج کو اکٹھے ملا کر دیکھا جائے تو اس کا مطلب نکلتا ہے کہ چینی ہارس شو چمگادڑ ہی ممکنہ طور پر سارس کوو 2 کی اصل میزبان ہے۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے انٹرنیشنل جرنل نیچر میڈیسین میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل مئی کے شروع میں چین کی ایک تحقیق میں نتیجہ نکالا گیا تھا کہ چمگادڑوں سے یہ وائرس پینگولین میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں میں پہنچ گیا۔

اس تحقیق میں ساؤتھ چائنا ایگریکلچرل یونیورسٹی اور گوانگ ڈونگ لیبارٹری فار لینگنان ماڈرن ایگریکلچرل کے سائنسدانوں نے کام کیا اور ان کا کہنا تھا کہ سارس کوو 2 جو کووڈ 19 کا باعث بنتا ہے، میں 2003 کے ایک حیوانی وائرس سارس کوو اور چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس آراے ٹی جی 13 کا سیکونس پایا جاتا ہے۔

جریدے جرنل نیچر میں شائع اس تحقیق میں کہا گیا 'چمگادڑوں میں متعدد اقسام کے کورونا وائرسز موجود ہوسکتے ہیں، مگر سارس کوو 2 کا دوسرا میزبان اب بھی واضح نہیں'۔

تحقیق کے مطابق ایک ملائیشین پینگولین میں ایک کورونا وائرس کو الگ کرنے پر اس کے ای، ایم، این اور ایس جینز کا موازنہ نئے نوول کورونا وائرس کیا گیا تو یہ بالترتیب 100 فیصد، 98.6 فیصد، 97.8 فیصد اور 90.7 فیصد ملتے تھے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ خاص طور پر پینگولین کورونا وائرس میں خلیات کو متاثر کرنے والے ایس پروٹین بھی نئے نوول کورونا وائرس سے ہوبہو مشابہت رکھتا ہے،بس ایک غیر اہم امینو ایسڈ فرق ہے۔

سائنسدانوں نے 17 سے 25 ملائشین پینگولینز میں تجزیہ کرنے کے بعد اس پینگولین وائرس کو شنااخت کیا تھا اور اسے الگ کرنے کے بعد یہ نتیجہ بیان کیا گیا۔

جنوری کے آخر میں ایک جینیاتی تجزیے میں ثابت ہوا تھا کہ انسانوں میں پھیلنے والے وائرس کا جینیاتی سیکونس چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس سے 96 فیصد تک ملتا جلتا ہے۔

مگر اس وقت یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ کونسا جانور سے یہ وائرس انسانوں تک پہنچا کیونکہ ایسے متعدد جاندار ہیں جو وائرسز کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں اور لگ بھگ کورونا وائرسز کی تمام اقسام انسانوں میں جنگلی حیات سے پھیلے۔

اس سے قبل فروری میں ایک تحقیق میں چینی سائنسدانوں نے شک طاہر کیا تھا کہ معدومی کے خطرے سے دوچار پینگولین چمگادڑوں اور انسانوں کے درمیان وائرس کے پھیلائو کی گمشدہ کڑی ہوسکتے ہیں۔

اسی طرح مارچ میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ پینگولینز کی کچھ تعداد میں ایسے کورونا وائرسز موجود ہیں جن کو اس وقت دنیا میں پھیلی کووڈ 19 کی عالی وبا سے جوڑا جاتا ہے۔

اس دریافت سے پینگولین چمگادڑوں کے بعد واحد ممالیہ جاندار بن جاتے ہیں جو نوول کورونا وائرس کا شکار بنتے ہیں۔

اس تحقیق میں وبا کے پھیلائو کے لیے پینگولینز کے کردار کو نہ تو ثابت کیا گیا اور ہی ان کے کردار سے انکار کیا گیا، مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس جانور نے نئے کورونا وائرس کے پھیلائو میں ممکنہ طور پر کردار ادا کیا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق چمگادڑ وہ جاندار ہے جس میں نوول کورونا وائرس موجود ہوسکتا ہے، مگر یہ براہ راست اس پرندے سے انسانوں میں منتقل نہیں ہوا بلکہ یہ کردار کسی اور جانور نے ادا کیا۔

پینگولین کو چین اور چند دیگر ممالک میں کھایا جاتا ہے جبکہ اس کی پرت جیسی کھال کو روایتی ادویات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

چین میں پینگولین کے گوشت کو کھانا غیرقانونی ہے مگر یہ پھر بھی وہاں مل جاتا ہے، اکثر پینگولینز کو جانوروں کی مارکیٹ میں فروخت بھی کیا جاتا تھا مگر 26 جنوری کے بعد ایسی تمام مارکیٹیں حکومتی احاکات پر بند کردی گئیں۔

مارچ میں ہونے والی تحقیق میں پینگولینز میں دریافت ہونے والی کورونا وائرسز کی مختلف اقسام کے جینیاتی سیکونسز نئے نوول کورونا وائرس سے 88.5 سے 92.4 فیصد تک ملتے جلتے ہیں۔

تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے 2017 اور 2018 کے دوران ایسے 18 پینگولینز کے ٹشوز کے مونوں کا تجزیہ کیا گیا جن کو اینٹی اسمگلنگ آپریشنز کے دوران بازیاب کرایا گیا تھا۔

محققین نے 18 میں سے 5 پینگولینز کے نمونوں میں کورونا وائرسز کو دریافت کیا۔

انہوں نے بعد میں مزید پینگولینز کے نمونوں کے ساتھ یہ عمل دہرایا اور ان میں بھی کورونا وائرسز کو دریافت کیا، جس کے بعد انہوں نے ان وائرسز کے جینومز کے سیکونس کا موازنہ نئے نوول کورونا وائرس سے کیا۔

محققین نے بتایا کہ جینیاتی مماثلت اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ پینگولینز ہی وہ عارضی میزبان ہے جس نے چمگادڑوں سے سارز کوو 2 کو انسانوں میں منتقل کیا، مگر انہوں نے اس امکان کو مسترد بھی نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پینگولینز کو مستقبل میں نئے کورونا وائرسز کے ممکنہ میزبانوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اس تحقیق کے نتائج کا خیرمقدم کرتے ہیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر دیگر جانداروں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جنہوں نے ہوسکتا ہے کہ اس وبا کو انسانوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہو۔

ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ وائرس کسی جنگلی جانور ممکنہ طور پر چمگادڑ سے کیسے کسی اور جانور اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا۔

مگر اس تحقیق میں ملائین پینگولینز میں اس طرح کے وائرس کو دریافت کیا گیا، جس سے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں یہ وائرس کہاں سے آیا ہوگا کیونکہ پینگولین کی یہ نسل چین کی بجائے جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک میں پائی جاتی ہے۔

دوسری جانب ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے حکومتوں پر دبائو ڈال کر اس جاندار کی غیرقانونی تجارت کو ختم کرایا جائے۔

نئے کورونا وائرس کے ممکنہ عارضی میزبان کے حوالے سے معلومات سے نئے کورونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول میں مدد مل سکے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں