قتل کیس: مسلم لیگ (ن) کے رہنما کو اشتہاری قرار دینے کے لیے کارروائی کا آغاز

اپ ڈیٹ 10 جون 2020
درخواست گزار کے مطابق 15 اکتوبر 1996 کو ملزم نے راولپنڈی کے چاندنی چوک کے قریب ان کے بھائیوں اور ان کے ملازم کا قتل کیا تھا—فائل فوٹوـ:شٹر اسٹاک
درخواست گزار کے مطابق 15 اکتوبر 1996 کو ملزم نے راولپنڈی کے چاندنی چوک کے قریب ان کے بھائیوں اور ان کے ملازم کا قتل کیا تھا—فائل فوٹوـ:شٹر اسٹاک

راولپنڈی کی ایک مقامی عدالت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) برطانیہ چیپٹر کے سینئر نائب صدر ناصر بٹ کو تقریباً ڈھائی دہائی (25 سال) پرانے تہرے قتل کیس میں اشتہاری مجرم قرار دینے کے لیے کارروائی کا آغاز کردیا اور گرفتاری کے لیے ان کے دائمی وارنٹ جاری کردیے۔

ناصر بٹ جج ویڈیو کیس میں بھی مرکزی کردار ہیں جو احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے اعتراف سے متعلق ہے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو دباؤ میں آکر سزا سنائی۔

راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اسرارالحق ملک کی شکایت پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاہد ضمیر نے وارنٹ جاری کرتے ہوئے ناصر بٹ کو مفرور مجرم قرار دینے کی کارروائی شروع کردی۔

اسرار الحق ملک نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ 15 اکتوبر 1996 کو ناصر بٹ نے راولپنڈی کے چاندنی چوک کے قریب ان کے بھائیوں اکرام الحق، نورالحق اور ان کے ملازم گلفراز عباسی کا قتل کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل: ناصر بٹ کے بھتیجے، قریبی عزیز کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

انہوں نے بتایا کہ ملزم قتل کے بعد جائے وقوع سے فرار ہوگیا تھا اور بعد میں بیرون ملک فرار ہوگیا.

مذکورہ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ناصر بٹ کے خلاف کارروائی کرے.

واضح رہے کہ درخواست گزار نے ناصر بٹ کے خلاف تقریباً ڈھائی دہائیوں کے بعد ایک ایسے وقت میں درخواست دی جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے حال ہی میں جج ویڈیو کیس کے اصل ملزم کو ضمانت پر رہا کیا تھا۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2002 میں سابق احتساب عدالت کے جج کی فلم بندی کرنے والے طارق محمود کو رہا کیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ اور سینئر جج جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے طارق محمود کی جانب سے فلم بندی اور بلیک میل کرنے کے بعد جج کی 19 سالہ خاموشی پر بھی سوالات اٹھائے۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ ناصر بٹ جج ویڈیو کیس میں ایک ملزم ہیں جنہوں نے احتساب عدالت کے سابق جج کی فلم بندی کی تھی۔

جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں آٹھ سال قید کی سزا سنائی ہے۔

اس سزا کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں سابق جج ارشد ملک اعتراف کرتے ہوئے دکھائی دیے تھے کہ انہوں نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں دباو کے تحت ان کی مبینہ غیر اخلاقی ویڈیو کی وجہ سے سزا سنائی ہے۔

تاہم ایک بیان حلفی کے ذریعے جج نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا اور حلف نامے میں ارشد ملک نے ناصر بٹ پر ویڈیو کے انکشاف کے حوالے سے دھمکی دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل: ناصر بٹ کے رشتہ داروں کا 'ہراساں' کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ ناصر بٹ، جج کی رہائش گاہ پر ان کے ساتھ بیٹھے تھے اور دونوں العزیزیہ ریفرنس پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔

ابتدائی طور پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل نے اس معاملے کی تحقیقات کی تھیں اور تین ملزمان ناصر جنجوعہ، خرم یوسف اور مہر غلام جیلانی کو گرفتار کیا۔

ابتدائی تحقیقات کے بعد ایف آئی اے نے انہیں الزام سے بری کردیا تھا۔

تاہم سابق جج ارشد ملک کی شکایت پر ایف آئی اے نے تفتیش انسداد دہشت گردی ونگ (سی ٹی ڈبلیو) کو منتقل کردی تھی۔

سی ٹی ڈبلیو نے فیصل شاہین کو گرفتار کیا تھا جس نے سابق جج ارشد ملک اور ناصر بٹ کے درمیان ملاقات کی فلم بندی کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں