ایوان صدر کے بجٹ میں نمایاں کمی

اپ ڈیٹ 14 جون 2020
ایوان صدر کے مجموعی بجٹ میں 60 فیصد سے زیادہ کمی جبکہ سپریم کورٹ کے اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان
ایوان صدر کے مجموعی بجٹ میں 60 فیصد سے زیادہ کمی جبکہ سپریم کورٹ کے اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان

اسلام آباد: بجٹ دستاویزات کے مطابق ایوان صدر کے مجموعی بجٹ میں 60 فیصد سے زیادہ کمی کی گئی ہے تاہم سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے اخراجات میں 21-2020 کے لیے اضافہ کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے لیے ایوان صدر کا مجموعی بجٹ 99 کروڑ 2 لاکھ روپے تھا تاہم صدر مملکت عارف علوی نےسال 21-2020 کے لیے اسے کم کرکے 59 کروڑ 7 لاکھ روپے کردیا۔

یہ کمی وہاں کام کرنے والے افراد کی مراعات کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کے ذاتی اخراجات میں کمی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔

مزید پڑھیں: وفاقی بجٹ میں صوبوں کیلئے صحت سے متعلق کوئی اسکیم نہیں، مرتضیٰ وہاب

بجٹ بک 21-2020 سے پتا چلتا ہے کہ صدر سیکریٹریٹ میں تعینات عملے اور افسران کے باقاعدہ مراعات اور دیگر مراعات آئندہ مالی سال کے لیے 19 کروڑ 32 لاکھ 20 ہزار روپے ہیں جبکہ اس پر رواں مالی سال 45 کروڑ 87 لاکھ 40 ہزار روپے خرچ ہوئے ہیں۔

اسی طرح صدر کے آپریٹنگ اخراجات میں ایک بڑی کٹوتی کی گئی جو آئندہ مالی سال کے لیے 5 کروڑ 33 لاکھ 80ہزار روپے کردیے گئے جو مالی سال 20-2019 میں 18 کروڑ 4 لاکھ 40 ہزار روپے تھے۔

آنے والے مالی سال کے لیے مرمت اور بحالی کے اخراجات میں بھی ایک بڑی کمی دیکھی گئی اور اس میں 38 لاکھ 60 ہزار روپے رکھے گئے جبکہ اس کے مقابلے میں رواں مالی سال میں یہ رقم 2 کروڑ 10 لاکھ 90 ہزار روپے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ صدر عارف علوی کوئی تنخواہ نہیں لے رہے ہیں جو کہ 20-2019 میں ایک کروڑ 7 لاکھ سے زائد روپے تھے کیونکہ بجٹ بک میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سفر کے ایک کروڑ 56 لاکھ کے اخراجات اور 6 کروڑ 33 لاکھ 70 ہزار کے دیگر متفرق اخراجات کا بھی بجٹ بک میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

ایوان صدر کے علاوہ دیگر اداروں سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد ہائیکورٹ، ملازمت پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کے لیے قائم وفاقی محتسب سیکرٹریٹ، وفاقی محتصب سیکریٹریٹ، وفاقی ٹیکس محتسب، اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کے دفاتر اور آڈیٹر جنرل پاکستان شامل ہیں۔

نئے بجٹ میں سپریم کورٹ کے اخراجات میں تقریباً 15 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ 2 ارب 40 کروڑ روپے ہے، اس میں آئندہ مالی سال کے لیے تنخواہوں اور الاؤنس میں 16.12 فیصد کا اضافہ بھی شامل ہے۔

بجٹ بک کے مطابق سپریم کورٹ میں ججز، افسران اور عملے سمیت 860 ملازمین کی کُل تنخواہ اگلے مالی سال کے لیے 52 کروڑ 28 لاکھ روپے ہوگی اور ان کے مراعات ایک ارب 39 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 21-2020: سبسڈی بل میں 40 فیصد تک کٹوتی

گزرنے والے مالی سال میں 857 اہلکاروں کے لیے تنخواہ اور مراعات بالترتیب 45 کروڑ 25 لاکھ روپے اور ایک ارب 19 کروڑ روپے تھے۔

بجٹ بک میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے ججز، دیگر افسران اور عملے سمیت اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں 33.86 فیصد اضافہ کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ملازمین سے متعلقہ اخراجات کو 21-2020 کے لیے 67 کروڑ 91 لاکھ روپے رکھا گیا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ 50 کروڑ 73 لاکھ روپے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ مالی سال کے لیے اپنی آپریٹنگ لاگت کو کم کرکے 4 کروڑ 91 لاکھ روپےکے مقابلے میں ایک کروڑ 35 لاکھ روپے کردیا ہے۔

علاوہ ازیں وزیر اعظم اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کا ذاتی بجٹ قانون کے مطابق ‘چارج‘ نہیں ہوتا ہے اور اسے قومی اسمبلی سے منظور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بجٹ بک میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم کا کُل بجٹ بشمول ’داخلی اور سرکاری‘ اخراجات 86 کروڑ 30 لاکھ روپے ہے جو گزرنے والے مالی سال میں ایک ارب 4 کروڑ روپے تھا۔

یہی نہیں بلکہ تقریباً تمام شعبوں میں کٹوتی کی گئی ہے اور وزیر اعظم کے دفتر کے ملازمین سے متعلقہ اخراجات گزشتہ مالی سال کے 75 کروڑ 28 لاکھ روپے کے مقابلے میں آئندہ مالی سال 68 کروڑ 68 لاکھ روپے رکھا گیا ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ 20-2019 کے لیے وزیر اعظم کے دفتر کی تنخواہوں اور الاؤنس کا منظور شدہ بجٹ 87 کروڑ 94 لاکھ روپے تھا۔

اسی دوران گزرنے والے مالی سال میں وزیر اعظم کے دفتر کے آپریٹنگ اخراجات 21 کروڑ 24 لاکھ روپے تھے اور اسے 21-2020 کے لیے 12 کروڑ 78 لاکھ روپے کردیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں