لاہور کے مختلف علاقوں میں کل سے 15 روزہ لاک ڈاؤن ہوگا، یاسمین راشد

اپ ڈیٹ 15 جون 2020
صوبائی وزیر صحت کے مطابق وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کے باعث12 بجے کے بعد ان علاقوں کو بند کردیا جائے گا—فوٹو: ڈان نیوز
صوبائی وزیر صحت کے مطابق وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کے باعث12 بجے کے بعد ان علاقوں کو بند کردیا جائے گا—فوٹو: ڈان نیوز

وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کے باعث کل رات 12 بجے سے لاہور کے کئی علاقوں کو بند کردیا جائے گا۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یاسمین راشد نے کہا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد حکومت کی طرف سے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر عملدرآمد کروانے کی پوری کوشش کی گئی اور اس کی خلاف ورزی پر دکانیں اور مارکیٹس بھی سیل کی گئی لیکن لوگوں نے پھر بھی عمل نہیں کیا۔

صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان لاہور آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ جن علاقوں میں وائرس کا پھیلاؤ زیادہ ہے اس حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے۔

مزید پڑھیں : جولائی کے آخر تک کورونا کے کیسز 10 سے 12 لاکھ تک پہنچ سکتے ہیں، اسد عمر

یاسمین راشد نے کہا کہ گزشتہ 2 روز میں ہم نے دیکھا کہ لاہور کے جن علاقوں میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے ہیں ان کے حوالے سے مختلف احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں گی۔

وزیر صحت پنجاب نے کہا کہ وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کے باعث کل 12 بجے کے بعد ان علاقوں کو بند کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ لاہور میں شاہدرہ، اندرون لاہور کے کچھ علاقے، مزنگ، شاد باغ، ہربنس پورہ، گلبرگ، لاہور کینٹ کے کچھ علاقے، نشتر ٹاؤن کا بیشتر حصہ اور علامہ اقبال ٹاؤن میں شامل کچھ سوسائٹیز کو مکمل طور پر بند کردیا جائے گا۔

صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ ان علاقوں میں، کھانے پینے کی اشیا، فارمیسیز اور کچھ کاروبار جیسا کہ حفاظتی طبی آلات بنانے والی فیکٹریاں کھلی رہیں گی، جن کی فہرست آویزاں کردی جائے گی جس کا اطلاق کل رات 12 بجے سے ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کمشنر لاہور اور سی سی پی او لاہور کی مدد سے اس حکم پر عمل درآمد کرایا جا رہا ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے یاسمین راشد نے کہا کہ لاہور کے ان علاقوں میں کم از کم 2 ہفتوں کے لیے لاک ڈاؤن لگایا جارہا ہے اور اس دوران صورتحال کا مسلسل جائزہ لیا جائے اگر کچھ بہتری آئی تو ان علاقوں کو وقت سے پہلے کھولا جاسکتا ہے۔

'یہ نہ ہو دیگر علاقوں کو بھی بند کیا جائے'

انہوں نے کہا کہ دیگر علاقے جہاں ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا انہیں بھی خبردار ہوجانا چاہیے کہ اگر ایسا کرنے سے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا تو یہ نہ ہو دیگر علاقوں کو بھی بند کردیا جائے۔

یاسمین راشد نے کہا کہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں تاکہ معیشت بھی چلتی رہے اور کاروبار بھی چلتا رہے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ میں روک تھام کی جاسکے۔

صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ جیسا کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ ماسک کے ذریعے وائرس کے پھیلاؤ کو 50 فیصد تک روکا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے بزرگوں کو محفوظ رکھنا ہے، خود کو ان سے دور رکھنا ہے کیونکہ اگر آپ کسی ضروری کام سے باہر جاتے ہیں تو گھر میں وائرس لا کر انہیں متاثر کرسکتے ہیں۔

'اگر ہماری حکومت فیل ہوگئی تو ساری حکومتیں ناکام ہوگئی'

یاسمین راشد نے کہا کہ ٹی وی پر مسلسل کہا جارہا ہے کہ حکومت کورونا وائرس پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی ہے، اگر واقعی حکومت ناکام ہوگئی ہے تو دنیا کی ساری حکومتیں ناکام ہوگئی ہیں۔

وزیر صحت پنجاب نے کہا کہ یہ ایک وائرل انفیکشن ہے اور پوری دنیا میں اسے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین جیسا مہذب ملک جس نے بہت سختی کی اور مہذب طریقے کے ساتھ اس وائرس کو روکا وہاں یہ پھر سر اٹھا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے کئی مرتبہ یہ بھی افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا موازنہ نیوزی لینڈ اور تائیوان سے کیا جاتا ہے جو مکمل طور پر کورونا وائرس پر قابو پاچکے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ کی پوری آبادی آدھے لاہور سے بھی کم ہے، ایسی جگہ پر وبا کو کنٹرول کرنا آسان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور کے تمام علاقے غیرمحفوظ، شہر میں 6 لاکھ 70 ہزار سے زائد کورونا کیسز کا اندیشہ

یاسمین راشد نے کہا کہ ہم دنیا کی پانچویں سب سے بڑی آبادی ہیں لیکن ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف پنجاب نہیں بلکہ سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں نے جو کوششیں کی اس کی مثال نہیں ملتی۔

صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ اگر ہم اپنا موازنہ بھارت کے ساتھ کریں تو مجھے پورا یقین ہے کہ ہم کئی گنا بہتر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں کورونا کے ایک لاکھ 44 ہزار کیسز کا مقابلہ اس سے ہونے والی 2 ہزار 720 اموات سے کریں تو شرح اموات دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم اور 1.8 ہے۔

یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ یہ ایک وبا ہے بطور حکومت ہماری کوشش ہے کہ نہ صرف اس پر قابو پائیں بلکہ اس کے علاج معالجے کے لیے بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔

'صوبے میں وینٹی لیٹرز کی قلت نہیں'

صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں میں 140 ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس اور نجی ہسپتالوں میں 368 ایچ ڈی یو بیڈز ہیں جن میں سے 30 فیصد ابھی بھی دستیاب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میو ہسپتال اور جناح ہسپتال میں مزید 15، 15 وینٹی لیٹرز نصب کیے گئے ہیں، پی کے ایل آئی کو مزید 50 ایچ ڈی یو بیڈز فراہم کیے جائیں گے اور اگلے ہفتے کے اندر 1000 آکسیجنیٹڈ بیڈز فراہم کیے جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 358 اور واپڈا ٹاؤن میں 259 کیسز سامنے آئے جب مریضوں کی اتنی بڑی تعداد ہو تو علاقوں کو بند کرنا پڑے گا، ان علاقوں کو بند کیا جارہا ہے جہاں کیسز کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں اب سختی کریں گے، وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کا مطالبہ مسترد کردیا

صوبائی وزیر کہا کہ صوبے میں وینٹیلیٹرز کی قلت نہیں ہے اس حوالے سے غلط تاثر پیدا کیا جا رہا ہے۔

یاسمین راشد نے کہا کہ لاہور میں 220 ایچ ڈی یوز اور 82 آئی سی یوز پر مریض موجود نہیں جن میں میو ہسپتال میں مزید 15 اور جناح ہسپتال میں مزید 15 شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ ہر شخص وینٹی لیٹر پر جائے گا، فون پر فرمائش کی جاتی ہے کہ ہمیں وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے، مریض گھر سے سوچ کر آتے ہیں کہ ہمیں وینیٹیلر چاہیے جبکہ وہ اس کے بغیر بھی ٹھیک ہوسکتے ہیں۔

وزیر صحت پنجاب نے کہا کہ ہم وینٹی لیٹر پر مریض تب ڈالتے ہیں جب 15 لیٹر آکسیجن پر بھی مریض کی سانس ٹھیک نہ ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں