بھارت امن چاہتا ہے، اشتعال دلایا تو مناسب جواب دیں گے، مودی

اپ ڈیٹ 17 جون 2020
20 بھارتی فوجی مرنے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کی کارروائی محض بیانات تک محدود ہے— فائل فوٹو: اے پی
20 بھارتی فوجی مرنے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کی کارروائی محض بیانات تک محدود ہے— فائل فوٹو: اے پی

چین سے جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی مرنے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتی حکومت کی چین کے خلاف کارروائی محض بیان بازی تک محدود ہے اور انہوں نے کسی قسم کی اشتعال انگیزی پر کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق بھارت اور چین دونوں ہی کا کہنا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں لیکن ہمالیہ میں دونوں ملکوں کی افواج میں ہاتھا پائی اور پتھراؤ کے نتیجے میں 20 فوجیوں کی ہلاکت پر دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سرحدی علاقے میں چین سے جھڑپ، افسر سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کو ہونے والی جسمانی جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی کو اشتعال نہیں دلایا، اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ بھارت امن چاہتا ہے لیکن اگر ہمیں اشتعال دلایا گیا تو بھارت مناسب جواب دے گا۔

بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ جھڑپ اس وقت شروع ہوئی جب بھارتی فوجیوں نے غیرقانونی اقدام اٹھاتے ہوئے لائن عبور کی، اشتعال دلایا اور چینی فوجیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں دونوں فریقین میں شدید جسمانی جھڑپ ہوئی اور فوجی زخمی اور ہلاک ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں کسی چینی فوجی کی موت کی خبر نہیں ملی البتہ بھارتی میڈیا دعویٰ کر رہا ہے کہ جھڑپوں میں چین کے 45 فوجی مارے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: چین اور بھارت سرحدی تنازع کے پُرامن حل کے متلاشی

ژاؤ نے کہا کہ سرحد پر مجموعی صورتحال مستحکم اور کنٹرول میں ہے۔

ایک پرانے معاہدے کے تحت دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان سرحد پر ایک بھی گولی نہیں چلی لیکن حالیہ عرصے میں سرحد پر گشت کے دوران دونوں افواج کے اہلکاروں میں متعدد جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بھارتی عہدیداران کے مطابق وادی گلوان میں شروع ہونے والے اس جھگڑے میں دونوں ملکوں کے فوجیوں میں ہاتھا پائی ہوئی اور ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا گیا۔

یہ جگہ اونچے پہاڑوں پر واقع ہے جو لداخ کے علاقے کی سرحد اکسائی چن کے علاقے سے ملتی ہے جسے 1962 میں جنگ کے بعد چین نے اپنے علاقے میں شامل کر لیا تھا۔

دونوں ملکوں کی فوجیں کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں لیکن یہ 1967 کے بعد سب سے بدترین جھڑپ ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی

بھارتی وزارت خارجہ کا بھی کہنا ہے کہ دونوں فوجوں کو جانی نقصان پہنچا لیکن چین نے اب تک کسی بھی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی۔

منگل کی رات فوجیوں کی موت کی خبر پر واویلا مچنے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر دفاع و خارجہ کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کے سربراہان سے بھی ہنگامی ملاقات کی۔

مئی 2019 میں لگاتار دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے نریندر مودی نے پاکستان سے مغربی سرحد پر جاری تناؤ اور کشیدگی کے سبب اپنی انتخابی مہم میں نیشنل سیکیورٹی کو توجہ دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔

چین کی حالیہ کارکردگی کے بعد جارح مزاج بھارتی میڈیا اور اپوزیشن جماعتیں بھارتی وزیر اعظم سے جوابی کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین سے سرحدی تنازع: بھارت نے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش مسترد کردی

ٹائمز آف انڈیا نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اب جارحانہ انداز میں مقابلے کا وقت ہے، وادی گلوان میں جھڑپ میں چین نے ہمیں بہت زیادہ پسپا کردیا ہے، بھارت کو اس کا ضرور جواب دینا چاہیے۔

اداریے میں چین کی درآمدات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ بیجنگ ہمارے فوجیوں کو سرحد پر اس طرح نہیں مار سکتا اور اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اس کے بعد وہ ہماری بڑی مارکیٹ سے فائدہ اٹھا سکے گا۔

اپوزیشن جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما راہول گاندھی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ وزیر اعظم خاموش کیوں ہیں؟ وہ چھپ کیوں رہے ہیں؟ بس بہت ہو گیا، ہمیں یہ جاننا ہے کہ آخر ہوا کیا ہے، چین کی ہمارے فوجیوں کو مارنے کی ہمت کیسے ہوئی، وہ ہماری زمین کیسے ہتھیا سکتے ہیں۔

لداخ کے پہاڑوں پر تین سے چار مقامات پر سیکڑوں چینی اور بھارتی فوجی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔

بھارت کے مطابق چینی فوجی لائن آف کنٹرول پر اس کی سرحد کے اندر گھس آئے جبکہ چین نے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی حدود میں واقع علاقوں کی سڑک پر تعمیر نہ کرے۔

مزید پڑھیں: چین لداخ میں بھارت کی غیر قانونی تعمیرات سے غافل نہیں رہ سکتا، وزیر خارجہ

چین کی وزارت خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرحد پر ہونے والے خونی تصادم کے ذمے داران کو فوری سزا دے۔

انہوں نے بھارت کو خبردار کیا کہ چین کی خودمختاری اور حدود کی حفاظت کے عزم کو کمزوری سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کرے ورنہ اسے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چینی وزیر خارجہ وینگ یی نے اپنے بھارتی ہم منصب سبرا منیم جے شنکر سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت صورتحال کا غلط اندازہ نہ لگائے، وہ خودمختار علاقے کے تحفظ کے چین کے عزم کو کمزوری سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔

انہوں نے چین کے دعوے کو دہراتے ہوئے کہا کہ بھارت اس تنازع کا مکمل طور پر ذمے دار ہے اور اس کی افواج نے اس لائن آف کنٹرول کو پار کیا، جو علاقے میں دونوں ملکوں کی ہزاروں افواج کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔

چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ جے شنکر نے بھارت کے مؤقف کی وضاحت کی البتہ کسی بھی قسم کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں اور کہا گیا کہ بھارت نے کشیدگی میں کمی پر اتفاق کیا ہے۔

بھارتی حکومت کے ذرائع کے مطابق جھڑپ پیر کی رات تناؤ میں کمی کے لیے بلائے گئے اجلاس میں شروع ہوئی اور اجلاس میں بھارتی وفد کی قیادت کرنے والے کرنل سب سے پہلے مارے گئے۔

مرنے والے بھارتی فوجی شدید زخمی ہو گئے تھے لیکن سخت خون جما دینے والے موسم کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کے منہ میں جا پہنچے۔

بھارت کے برعکس چین میں ہر میڈیا چینل نے اس کو بریکنگ نیوز کی طرح مستقل نہیں چلایا اور میڈیا نے محض چین کی فوج کی مغربی کمانڈ کی جانب سے جاری بیان نشر کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں