کووڈ 19 کے بغیر علامات والے مریضوں کا مدافعتی ردعمل کمزور ہونے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 24 جون 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کے ایسے مریض جن میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، ممکنہ طور پر نئے کورونا وائرس کے خلاف کمزور مدافعتی ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

یہ دعویٰ چین میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

طبی جریدے جرنل نیچر میڈیسین میں شائع تحقیق میں نئے کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے 37 مریضوں کا جائزہ لیا گیا جن میں کسی قسم کی علامات نظر نہیں آئی تھیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے مریض اوسطاً 19 دن تک وائرس کو جسم سے خارج کرتے رہتے ہیں جبکہ علامات والے 37 مریضوں میں یہ دورانیہ 14 دن دیکھا گیا۔

چونگ چنگ میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ بیشتر افراد کو کورونا وائرس سے معمولی سے زیادہ شدت والی نظام تنس کی علامات بشمول بخار، کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جو وائرس سے متاثر ہونے کے بعد 2 سے 14 دن میں ظاہر ہوسکتی ہیں۔

تاہم محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ اس وائرس سے متاثر ہونے والے بیشتر افراد بہت معمولی علامات نظر آتی ہیں یا کسی قسم کی علامات نمایاں نہیں ہوتیں۔

تحقیق میں ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو چین کے ضلع وانزو میں 10 اپریل سے قبل نئے کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے، جن میں سے 22 خواتین اور 15 مرد تھے، جو 8 سے 75 سال کی عمر کے تھے۔

محققین نے بتایا کہ علامات والے مریضوں سے موازنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ جن میں بیاری کسی شکل میں نظر نہیں آتی، وہ زیادہ عرصے تک وائرس کو جسم سے خارج کرتے ہیں اور یہ دورانیہ اوسطاً 19 دن کا ہوتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان مریضوں میں وائرس کے مخصوص مدافعتی نظام کے مالیکیولز آئی جی جی اینٹی باڈیز علامات والے گروپ کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم تھیں.

محققین کے مطابق ایسے مریضوں میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 8 ہفتوں میں 80 فیصد سے زیادہ کم ہوچکی تھی جبکہ علامات والے مریضوں میں یہ شرح 62 فیصد تھی۔

انہوں نے کہا کہ بغیر علامات والے مریضوں ورم کش خلیات اور پروٹین کی سطح بھی کم ہوتی ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ان افراد کا نئے کورونا وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کمزور ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق بغیر علامات والے مریضجوں میں آئی جی ی اینٹی باڈی لیول بیماری کے بعد 3 ماہ میں گھٹنے لگتا ہے۔

اس سے قبل دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے مریضوں میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بننے کا امکان ہوتا ہے۔

مگر نئی تحقیق میں اس خیال کو تقویت دی گئی ہے کہ عوامی سطح پر اقدامات اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ وائرس کی روک تھام کے لیے بہت اہم ہیں۔

محققین کا ماننا تھا کہ بغیر علامات والے اور علامات والے مریضوں کے بڑے گروپس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اینٹی باڈی پر مبنی امیونٹی کی مدت کا تعین کیا جاسکے۔

اس سے قبل رواں ہفتے جاپان کی فیوجیتا ہیلتھ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس کے اسمپٹومیٹک مریض ٹیسٹ سے بیماری کی تصدیق کے بعد عموماً 9 دن میں صحتیاب ہوجاتے ہیں۔

جاپانی محققین نے اس تحقیق کے ڈائمنڈ کروز شپ میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ایسے افراد کا ڈیٹا دیکھا تھا جن میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی مگر علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں اور صرف 11 افراد میں بعد میں جاکر علامات دیکھنے میں آئیں۔

اس نئی تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیوا انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے اور محققین کا کہنا تھا کہ بغیر علامات والے مریضوں کی اکثریت میں بیماری کے دوران نشانیاں نظر نہیں آتیں۔

نتائج میں بتایا کہ ایسے لگ بھگ 50 فیصد افراد میں وائرس 9 دن کے اندر کلیئر ہوجاتا ہے جبکہ 90 فیصد مریض 15 دن میں صحتیاب ہوجاتے ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بیشتر مریضوں کا ابتدائی تصدیق کے بعد 5 دن میں صحتیابی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

جاپانی محققین نے تخمینہ لگایا کہ ایسے ماحول میں جہاں کورونا وائرس آسانی سے پھیل سکتا ہو، وہاں بغیر علامات مریضوں کی تعداد ممکنہ طور پر علامات والے افراد کے برابر ہوسکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ تشخیص کے بعد بار بار ٹیسٹ کرنا بے معنی ہے کیونکہ نتائج ایک جیسے ہی رہتے ہیں اور وسائل درست طریقے سے استعمال نہیں ہوپاتے۔

اس تحقیق کے نتائج کے بعد جمعے کو جاپانی وزارت صحت نے ہسپتال میں زیرعلاج کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے اپنی گائیڈلائنز میں نظرثانی کی اور اب ہدایت کی گئی کہ ایسے مریض جن کے 6 دن کے دوران 2 بار نیگیٹو آئے ہوں، انہٰں ڈسچارج کردیا جائے۔

محققین نے بتایا کہ اس تحقیق کے دوران ڈائمنڈ پرنسسز کروز شپ کے 128 مریضوں کو دیکھا گیا تھا جن میں سے 96 مریض ایسے تھے جن میں وائرس کی تصدیق ہوئی مگر علامات ظاہر نہیں ہوئیں، جن میں سے 90 افراد کا ڈیٹا تجزیے کے لیے دستیاب تھا۔

اس بحری جہاز میں مجموعی طور پر 700 سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

محققین نے وضاحت کی کہ جن 11 مریضوں میں علامات نمودار ہوئیں وہ پری اسمپٹومیٹک مرحلے میں تھے، مکمل طور پر اسمپٹومیٹک نہیں تھے۔

یہ تحقیق اس وقت سانے آئی ہے جب اس طرح کے مریضوں سے وائرس کی دیگر افراد میں منتقلی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔

جاپانی محققین کا کہنا تھا کہ ہم ابھی پوری طرح نہیں جان سکے کہ بغیر علامات والے مریضوں کی کتنی تعداد وائرس کو آگے منتقل کرسکتی ہے، جب تک یہ جان نہیں لیا جاتا، اس وقت تک ایسے مریض طبی حلقوں میں بحث کا باعث بنیں گے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کو گزشتہ ہفتے اس وقت دنیا بھر کے طبی ماہرین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب یہ بیان جاری کیا گیا کہ کووڈ 19 کے ایسے مریض، جن میں کووڈ 19 کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، وہ بہت کم اس وائرس کو آگے پھیلاتے ہیں۔

8 جون کو معمول کی پریس بریفننگ کے دوران ڈبلیو ایچ او کی عہدیدار اور وبائی امراض کی ماہر ماریہ وان کرکوف نے کہا تھا 'ایسا نظر آتا ہے کہ بغیر علامات والے مریض نہ ہونے کے برابر اس وائرس کو آگے منتقل کرتے ہیں، ہمارے پاس ایسے ممالک کی متعدد رپورٹس ہیں جن کی جانب سے کانٹیکٹ ٹریسنگ پر بہت تفصیلی کام کیا گیا ہے، انہوں نے ایسے مریضوں کے کیسز کا تعاقب کیا، ان کے جاننے والوں کی جانچ پڑتال کی اور وہ وائرس کی منتقلی کو دریافت نہیں کرسکے، ایسا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے'۔

اس بیان پر 9 جون کو دنیا بھر کے ڈاکٹروں، صحافیوں، وبائی امراض کے ماہرین کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر بھی بہت شدید ردعمل آیا جو اتنا زیادہ تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے ٹوئٹر، فیس بک اور لنکڈن میں سوال جواب لائیو اسٹریم کرتے ہوئے اس بیان پر وضاحت جاری کی۔

عالمی ادارے نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ غلطی نہیں تھی مگر بغیر علامات والے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والے لفظ اسمپٹومیٹک کا مطلب غلط لیا جاتا ہے جس میں ایسے افراد شامل ہوتے ہیں جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئی ہوتی یا ایسے افراد جن میں بیماری کی شدت بہت معمولی ہوتی ہے۔

عالمی ادارے نے زور دیا کہ کورونا وائرس پر تحقیق بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور جو بیان دیا گیا تھا وہ کم تعداد میں تحقیقی رپورٹس اور ڈیٹا سیٹس کے بارے میں تھا، اس میں تمام کورونا وائرس کے مریضوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جن پر ابھی تک تحقیق نہیں ہوئی۔

ماریہ وان نے منگل کو کہا 'میں نے بہت کم کا جملہ استعمال کیا تھا اور میرے خیال میں اس حوالے سے غلطی فہمی ہوئی کہ دنیا بھر میں اس طرح کے بغیر علامات والے مریضوں کی جانب سے وائرس آگے منتقل کرنے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، میں نے جو حوالہ دیا تھا تحقیقی رپورٹس کے ایک مجموعے کا تھا'۔

ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیک ریان نے سوال جواب کے اس سیشن میں کہا 'ایسا ہوتا ہے، میں اس بات یقین رکھتا ہوں کہ ایسا ہوتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کس حد تک'۔

اس بات کا اب تک واضح جواب نہیں کہ بغیر علامات والے ایسے کتنے مریض آگے لوگوں کو کووڈ 19 کا شکار کرسکتے ہیں مگر ڈبلیو ایچ او کے مطابق کچھ ڈیٹا سیٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ شرح 40 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

اس پہلو کے حوالے سے ایک الجھن یہ بھی ہے کہ متعدد افراد اس حوالے سے بہت زیادہ متعدی ہوتے ہیں اور بہت آسانی سے وائرس کو دیگر تک پہنچا سکتے ہیں، وہ بھی اس سے قبل جب انہیں بیماری کا علم ہوتا ہے۔

ایسا وہ بیماری کی علامات ظاہر ہونے سے قبل ہی کردیتے ہیں جو کہ تشویش کا باعث ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان افراد میں چند دنوں میں بیماری کی واضح علامات ظاہر ہوجائیں، مگر شروع میں وہ خود کو بیمار محسوس نہیں کرتے اور اسی وجہ سے اپنے ارگرد وائرس پھیلاتے رہتے ہیں۔

مائیک ریان کے مطابق 'اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ریسٹورنٹ میں ہو اور خود کو صحت مند سمجھ رہے ہوں اور بخار کا آغاز ہوجائے، آپ گھر میں رہنے کا خیال نہیں کرتے، مگر یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب وائرل لوڈ بہت زیادہ ہوتا ہے، یعنی بیماری اس لمحے میں پھیل سکتی ہے اور یہ مرض بہت زیادہ متعدی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ وائرس دنیا بھر میں بہت تیزی سے پھیلا'۔

ماریہ وان نے اس حوالے سے کہا کہ کورونا وائرس کے متعدد مریض مکمل طور پر علامات سے محفوظ نہیں ہوتے، مگر ان میں بیماری کی شدت بہت کم ہوتی ہے، ایسے افراد کے لیے تحقیقی رپورٹس میں اسمپٹومیٹک کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، مگر یہ درست نہیں ہے، کیونکہ ایسے افراد تھوڑی بہت تو بیماری محسوس کرتے ہیں مگر اتنے بیمار نہیں ہوتے کہ وائرس کی موجودگی کا یقین کرسکیں۔

ان کا کہنا تھا 'جب ہم اسمپٹومیٹک کہتے ہیں، تو ہمارا مطلب ایسا فرد ہوتا ہے جس میں علامات نہیں ہوتیں، کسی بھی قسم کی علامات نہیں ہوتیں'۔

عالمی ادارے نے زور دیا کہ سماجی دوری، ہاتھوں کی صفائی، اپنے چہرے کو چھونے سے گریز اور علامات والے مریضوں کا سراغ لگا کر ہی وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

مائیک ریان نے کہا 'وائرس کو روکنا ممکن ہے، یہ اتنا متعدی نہیں کہ اسے روکا نہ جاسکے'۔

تبصرے (0) بند ہیں