ریفرنس کیخلاف سماعت میں جسٹس عیسیٰ پیش، 'ایگزیکٹو کو شتربےمہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے'

اپ ڈیٹ 17 جون 2020
سپریم کورٹ میں جسٹس عیسیٰ پیش ہوگئے اور اپنی اہلیہ کا مؤقف بیان کیا — فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں جسٹس عیسیٰ پیش ہوگئے اور اپنی اہلیہ کا مؤقف بیان کیا — فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر معاملہ زیر التوا ہے اور آج کیس میں اہم موڑ اس وقت آیا جب درخواست گزار اور عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود کمرہ عدالت میں پیش ہوگئے اور معاملے پر دلائل دیے جبکہ سربراہ فل کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہر جج قابل احتساب ہے، ہم ججز اپنی نجی اور پبلک زندگی پر جواب دہ ہیں، عدلیہ کی ساکھ کو ایک جج کے باعث متاثر نہیں ہونے دیں گے۔

ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے یہ ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو کو شتربےمہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے، ایگزیکٹو کے اختیارات کا جائزہ لینے کیلئے عدالتی فیصلے میں کچھ چیزوں کا تعین کیا گیا ہے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت ہوئی، جہاں آج پہلی مرتبہ درخواست گزار خود پیش ہوئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے دلائل دیے۔

خیال رہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

اس معاملے پر اب تک متعدد طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔

بعد ازاں مذکورہ معاملے کی 24 فروری کو ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد مذکورہ معاملے میں وفاق کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ اس کیس میں پیش ہورہے ہیں۔

ایک طویل وقفے کے بعد اس کیس کی سماعت جون کے آغاز سے دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور اب فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوکر دلائل دے رہے ہیں جبکہ ایک سماعت میں ججز یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ یہ کیس عدالت کی موسم گرما کی چھٹیوں سے پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'کسی نے نہیں کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، قانون کے مطابق ایسا ہوسکتا ہے'

آج (بدھ کو) سماعت کے دوران فروغ نسیم نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ عدالت کے ایک سوال پر صدر مملکت اور وزیراعظم سے مشاورت کی ہے، وزیراعظم کہتے ہیں کہ انہیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے جبکہ ہمیں معاملہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

درخواست گزار کے جج اور اہلیہ ایف بی آر کے ساتھ تعاون کریں، فروغ نسیم

فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر 2 ماہ میں فیصلہ کرلے، درخواست گزار جج اور اہلیہ، ایف بی آر کے ساتھ تعاون کریں۔

سماعت کے دوران ہی فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے جواب پر کہا کہ گزشتہ روز ایک جواب داخل کرایا گیا، جس پر وزیر اعظم نے کہا ہے کہ لندن میں میری ایک پراپرٹی بھی نکلے تو ضبط کر لیں، مزید یہ کہ پراپرٹی ضبط کر کے پیسہ قومی خزانے میں ڈال دیں۔

حکومتی وکیل کی بات پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے اس جواب کا جائزہ نہیں لیا، بدقسمتی ہے دونوں سائیڈز میڈیا سے رجوع کرتی رہی ہیں۔

اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ جج نے نہیں کہا کہ یہ جائیدادیں وزیراعظم کی ہیں، جواب میں ویب سائٹ کے حوالے سے بات کی گئی ہے، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جج نے جواب میں وزیراعظم کے نام لندن کی پراپرٹیز بتائی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود عدالت پہنچ گئے

اس موقع پر کیس میں اس وقت نیا موڑ آیا جب سماعت کے دوران ہی سپریم کورٹ کے جج اور اس کیس کے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود عدالت پہنچ گئے، جہاں انہوں نے فروغ نسیم کے دلائل کے دوران عدالت سے بات کرنے کی اجازت مانگی۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے آپ آئے ہیں آپ تشریف رکھیں۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے میری اہلیہ نے ہمیشہ ماسک پہنے رکھنے کی تلقین کی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے ماسک کی وجہ سے ہم آپ کو ٹھیک سے سن نہیں پا رہے، اس پر جسٹس عیسیٰ نے اپنے چہرے سے ماسک ہٹایا اور کہا کہ میں اپنی اہلیہ کی تلقین کی خلاف ورزی کر رہا ہوں۔

یہ قاضی فائز کا نہیں ہم سب کا مقدمہ ہے، درخواست گزار

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قاضی فائز عیسیٰ کا مقدمہ نہیں بلکہ ہم سب کا مقدمہ ہے، یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ججز مجھے بچانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے اور میرے خاندان کے ساتھ کیا ہوا، اس میں نہیں جانا چاہتا، ریفرنس سے پہلے میرے خلاف خبریں چلی۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مئی کے آخر میں یہ ساری باتیں شروع ہوئیں، مجھے ریفرنس کی کاپی فراہم نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ میں عدالت میں بحیثیت درخواست گزار ذاتی حیثیت میں پیش ہو رہا ہوں، اگر کچھ غلط کہا ہے تو میرے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کریں۔

اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ درخواست گزار، ہم حکومت وکیل کو سن رہے ہیں، یہ مناسب نہیں کہ حکومتی وکیل کو دلائل سے روک کر کسی کو موقع دیا جائے، جس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ حکومت نے عدالتی تجویز سے اتفاق کیا ہے، مجھے اس پر جواب دینا ہے۔

اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے جائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں، جسٹس عیسیٰ

اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کا مؤقف عدالت میں پیش کرنے کی پیشکش کی اور کہا کہ میں آج اپنی اہلیہ کا اہم پیغام لایا ہوں، وہ جائیدادوں کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں، اہلیہ کے والد کو کینسر کا عارضہ لاحق ہے، اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے جائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں، عدالت اہلیہ کو ویڈیو لنک پر مؤقف دینے کا موقع دے۔

انہوں نے کہا کہ اہلیہ کہتی ہیں کہ ایف بی آر نے ان کی تذلیل کی ہے، وہ کہتی ہیں کہ ایف بی آر کو کچھ نہیں بتائیں گی، اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ آپ کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پیشکش پر عدالتی بینچ کے سربراہ نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کیا جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عمر عطا بندیال بولے جج صاحب کے بیان پر غور کیا ہے، انہوں نے اہلیہ کی جانب سے بیان دیا، اہلیہ کا بیان بڑا اہم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ تاہم ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ تحریری جواب داخل کر کے مؤقف دیں، تحریری جواب آنے کے بعد مقدمے کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ وکیل نہیں ہیں، میری اہلیہ کو کسی وکیل کی معاونت نہیں ہوگی۔

ہم آپ کی پیشکش پر مناسب حکم جاری کریں گے، جسٹس عمر عطا

جسٹس عیسیٰ بولے کہ اہلیہ کہتی ہیں کہ اکاؤنٹ بتانے پر حکومت اس میں پیسہ ڈال کر نیا ریفرنس نہ بنا دے، اہلیہ تحریری جواب جمع کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اہلیہ کا مؤقف سن کر جتنے مرضی سوال کریں، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ کو ریفرنس کی وجہ سے بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے، میری اہلیہ کو عدالت کے سامنے مؤقف دینے کی اجازت ہونی چاہیے، میں اپنی اہلیہ کا وکیل نہیں ان کا پیغام لے کر آیا ہوں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دیکھیں جج صاحب، جس پر جسٹس عیسیٰ بولے کہ میں یہاں جج نہیں درخواست گزار ہوں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کی پیشکش پر مناسب حکم جاری کریں گے، ہم نے اہلیہ کا پیغام سن لیا ہے، جس پر جسٹس عیسیٰ بولے کہ میری اہلیہ کی استدعا کو تبدیل نہ کریں، اس پر پھر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ہم اہلیہ کی زبانی مؤقف دینے کی پیش کش پر غور کریں گے۔

مناسب جواب دیتے ہیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا، فروغ نسیم

سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کی بات پر حکومتی وکیل فروغ نسیم بولے کہ جج سے میری کوئی دشمنی نہیں، اگر مناسب جواب دیتے ہیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا، میں جج اور ان کی اہلیہ کا بڑ احترام کرتا ہوں، میں نے کبھی معزز جج کے بارے میں منفی سوچ نہیں رکھی۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ اگر اہلیہ جواب دیتی ہیں تو سارا عمل شفاف ہو جائے گا، 9 ماہ میں ہم نے بھی کیس کی تیاری کی ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ ریفرنس میں نقائص ہیں، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ریفرنس کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا۔

مذکورہ سماعت میں دلائل دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کو 29 مئی کو ریفرنس موصول ہوا جبکہ کونسل نے 14 جون کو حکم جاری کیا، اس کے علاوہ جج نے 28 جون کو اپنا جواب جوڈیشل کونسل میں داخل کیا۔

دوران سماعت جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ معاون خصوصی شہزاد اکبر نے گزشتہ روز ٹی وی پر آکر زیر التوا مقدمے پر بات کی، سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس سے بڑا جواب حکومت نے داخل کردیا۔

مزید پڑھیں: ’جائیدادوں‘ کی تفصیلات جاسوسی کے ذریعے حاصل کی گئیں، جسٹس عیسیٰ

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حکومتی وکیل نے بتایا کہ اہلیہ سلائی مشین چلاتی ہیں، جس سے 5 یا 6 ملین پاؤنڈ (50 سے 60 لاکھ پاؤنڈ) آتے ہیں، اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیا نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، جسٹس قاضی امین نے اس نقطے پر حکومتی وکیل کو روکا تھا، ہمارے لیے آپ کا بڑا احترام ہے لیکن آپ درخواست گزار ہیں، آپ کے وکیل مؤثر انداز میں یہ بات کر سکتے ہیں (کیونکہ) آپ جذباتی ہو سکتے ہیں، جس پر جسٹس عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں جذباتی نہیں ہوں۔

وہ بولے کہ حکومتی وکیل کہتے ہیں منی ٹریل آج بتا دیں، کل بتا دیں، پہلے انہوں نے تسلیم کیا کہ ان جائیدادوں سے آگاہ ہیں، تسلیم کیا کہ یہ جائیدادیں میری اہلیہ اور بچوں کی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا لندن کی جائیدادوں کو چھپایا گیا؟ کوئی چیز جائیدادوں کو چھپانے کے لیے استعمال نہیں کی گئی لیکن کہا گیا کہ کونسل کسی شخص کی اہلیہ کو بلا سکتی ہے، جوڈیشل کونسل نے ایک بار بھی بلا کر میرا مؤقف نہیں سنا۔

طویل سماعت میں جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے تاخیر سے جواب جمع کرائے گئے۔

حکومتی وکیل نے کہا کہ ایف بی آر والے جج سے ڈرتے ہیں، جسٹس فائز عیسیٰ

سماعت کے دوران درخواست گزار جسٹس عیسیٰ نے یہ بات کہی کہ سابق اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ساتھی ججز نے درخواست تیار کرنے میں مدد کی، اس پر جسٹس عمر بولے کہ آپ اس بات کو چھوڑ دیں۔

عدالتی بینچ کے سربراہ کی بات پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں التجا کرتا ہوں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، جس پر جسٹس عمر نے کہا کہ ہم نے توہین عدالت کی کارروائی کی ہے۔

اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ اہلیہ کے مؤقف کے بعد میں اپنی درخواست پر مقدمہ لڑوں گا، حکومتی وکیل نے کہا تھا کہ ایف بی آر والے جج سے ڈرتے ہیں، ایف بی آر نے فیصلہ ہمارے حق میں دیا تو پھر یہی کہا جائے گا۔

درخواست گزار جج نے کہا کہ عدالت میری اہلیہ کے بیان کے بعد ان سے سوالات کرسکتی ہے۔

اپنے خلاف ریفرنس کی بات پر جسٹس عیسیٰ نے بولے کہ منہ بند رکھتے ہوئے اس ریفرنس کو برداشت کیا، ہر دن اس معاملے پر ٹی وی چینلز پر بحث کی گئی، صدر مملکت نے ایوان صدر میں بیٹھ کر 3 انٹریوز دیے، شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل نے ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنس کی اور ایک دوسرے کو جھوٹا قرار دیا۔

منافق نہیں ہوں جو کہتا ہو سچ کہتا ہوں، جسٹس عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ میں نے حکومتی آفر قبول نہیں کی، میں منافق نہیں ہوں جو کہتا ہو سچ کہتا ہوں، اس معاملے میں میری اہلیہ کو کیوں الزام دیا گیا، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ جج صاحب ہم آپ کا احترام کرتے ہیں اب آپ تشریف رکھیں اور حکومتی وکیل کو دلائل دینے دیں، یہ فل کورٹ کی سماعت ہے آپ بیٹھ جائیں۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں یہاں جج کی حیثیت سے نہیں آیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے عدالت کی کارروائی میں مداخلت کی ہے، اگر آپ اپنے دلائل اپنے وکیل کے ذریعے دیتے تو بہتر ہوتا۔

بینچ کے سربراہ نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت آج اس معاملے پر اپنا حکم تحریر کر دے گی، آپ اپنی اہلیہ کا پیغام لے کر آئے، آپ کی اہلیہ کا پیغام ہمارے شیڈول کو متاثر نہیں کرے گا، ہم اس کیس کو ایف بی آر کو بھیج رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'ذہن میں رکھیں ایک جمہوری حکومت کو ججز کی جاسوسی پر ختم کیا جاچکا ہے'

اس موقع پر سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کیا گیا جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو فروغ نسیم نے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عوام سے کوئی بھی شخص جوڈیشل کونسل میں رائے کے بغیر ریفرنس بھیج سکتا ہے، صدر مملکت کو ریفرنس کونسل کو بھیجنے سے پہلے اپنی رائے کا تعین کرنا ہوگا، کونسل کو ریفرنس بھیجنے سے قبل صدر مملکت کو رائے بنانی ہوگی کہ ان کہ نظر میں مس کنڈکٹ ہوا ہے۔

صدر کا میری نظر میں جج کا مس کنڈکٹ ہے کہنا بڑی خطرناک دلیل ہوگی، جسٹس منیب

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جج کے مس کنڈکٹ کا آئین میں تعین نہیں، صدر مملکت کہہ دیں کہ میری نظر میں جج کا مس کنڈکٹ ہے تو یہ دلیل بڑی خطرناک ہے، ساتھ ہی جسٹس یحییٰ بولے کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ صدر کے سامنے رائے سے قبل مواد کیا تھا۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز میں جن الزامات کا ذکر ہے وہ ہی ریفرنس میں درج ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ ریفرنس غیر ملکی جائیدادوں کی ملکیت اور خریداری کے ذرائع کا ہے، عدالت کونسل کی کارروائی میں نہیں جاسکتی، لگتا ہے کونسل نے بڑا محتاط رویہ اختیار کیا، عدالت مالی معاملات پر جوابدہ ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہر جج قابل احتساب ہے، ہم ججز اپنی نجی اور پبلک زندگی پر جواب دہ ہیں، عدلیہ کی ساکھ کو ایک جج کے باعث متاثر نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی سوال مالی امور کا ہے، اس سوال کا جواب لیا جائے گا، چاہے جسٹس عیسیٰ کے وکیل اپنی رضا مندی نہ دیں، عدالت اس معاملے پر آگے بڑهے گی۔

عدالتی ریمارکس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ‏ایک مرتبہ جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کردے تو وہ چیلنج نہیں ہوسکتی، آرٹیکل 211 کے تحت کونسل کی کارروائی چیلنج نہیں ہو سکتی، درخواست گزار نے کونسل کے شوکاز نوٹس کو کالعدم قرار دینے کی استدعا نہیں کی، اس پر جسٹس مقبول نے کہا کہ کونسل کی کارروائی نہیں ہو سکتی لیکن آپ شو کاز نوٹس پر انحصارکیوں کررہے ہیں، اس صورت میں ریفرنس کی ساکھ کیا ہوگی۔

جوڈیشل کونسل مواد ملنے پر جج کیخلاف کارروائی کی مجاز ہے، حکومتی وکیل

اس کے جواب میں فروغ نسیم بولے کہ آرٹیکل 209کے تحت کونسل کے پاس مواد آنے پر ازخود کارروائی کا اختیار بھی ہے، جوڈیشل کونسل مواد ملنے پر جج کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ کونسل کے پاس ازخود کارروائی کا اختیار ہے تو کیا افتخار چوھدری کیس کا فیصلہ ختم ہوگیا، یہ دلیل بڑی خطرناک ہے۔

اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل کی ستائش کرتے ہیں، مناسب ہوگا کہ کہ بدنیتی پر بھی ساتھ میں دلائل دیں، جس پر حکومتی وکیل بولے کہ بدنیتی پر دلائل بھی دوں گا اور معروضات بھی پیش کروں گا، کونسل کے پاس جج کے خلاف کارروائی کے تین طریقہ کار ہیں۔

فروغ نسیم نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں معروضات پیش کرنے کا موقع دیا جائے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ عدالت پر زور نہیں ڈال رہا کہ میری بات کو مانا جائے۔

ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر کی بات کا جواب دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا گیا، آرمی جنرل نے افتخار چوہدری کو بلاکر بٹھایا، تذلیل کی، افتخار چوہدری کیس میں بد نیتی عیاں تھی لیکن اس مقدمے میں بد نیتی کہاں ہے۔

مزید پڑھیں: فائزعیسیٰ کیس:فروغ نسیم سے تند و تیز سوالات،ریفرنس کی تجویز دینے والے کا نام بتانے پر زور

فروغ نسیم نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ فروغ نسیم غیر جمہوری آدمی ہیں، اگر میں غیر جمہوری ہوتا تو پاکستان بار کونسل کا وائس چیئرمین منتخب نہ ہوتا، ‏ان ساری باتوں سے بدنیتی کا کیس نہیں بنتا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومتی وکیل نے کہا کہ 184/3کے تحت مواد سامنے آجائے تو کارروائی ہوتی ہے، شارخ جتوئی کیس میں تھرڈ پارٹی کی درخواست پر کارروائی کی گئی، ریفرنس غلط تھا یا درست اس پر کونسل ایکشن لے چکی ہے۔

وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ ‏آپ کہتے ہیں ریفرنس چلا بھی جائے تو شوکاز نوٹس اپنی جگہ رہے گا؟ ساتھ ہی جسٹس منصور نے پوچھا کہ شوکاز نوٹس کے بعد کیا صدر مملکت ریفرنس واپس لے سکتے ہیں؟ جس پر حکومتی وکیل نے یہ دلیل دی کہ آرمی چیف کیس میں درخواست گزار کی استدعا کی درخواست کے باوجود مقدمہ واپس نہیں لینے دیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ صدر مملکت ریفرنس دائر ہونے کے بعد واپس نہیں لے سکتے۔

اسی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ‏آرمی چیف کیس میں عدالت نے درخواست واپس نہ ہونے کا فیصلہ دیا، جوڈیشل کونسل نے ریفرنس واپس ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے حکومتی وکیل سے یہ بھی کہا کہ ناراض نہ ہوں تو ایک سوال پوچھ سکتا ہوں، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ بالکل پوچھیں ناراض ہونے والی بات نہیں، ججز کے خلاف بے وقعت درخواستیں نہ آئیں اس لیے رولز 7، 8 اور 9 بنائے گئے، جوڈیشل کونسل عدالتی فورم نہیں ہے جو ڈیکلیئریشن دے۔

انہوں نے کہا کہ جب کونسل جج کیخلاف سفارشات دے تو سوچ بھی نہیں سکتے حکومت اتفاق نہ کرے، جوڈیشل کونسل کی سفارشات قیمتی نوعیت کی ہوتی ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر بولے کہ کیا جوڈیشل کونسل بدنیتی کے حوالے سے آبزرویشنز دے سکتی ہے، ساتھ ہی جسٹس منصور نے کہا کہ کونسل ایسے معاملات میں صدر مملکت کو سنیں بغیر کیسے آبزرویشن دے سکتی ہے، اس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کونسل صدر مملکت کو بھی سمن کر سکتی ہے۔

ایگزیکٹو کو شتربےمہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے، جسٹس مقبول باقر

بعد ازاں سماعت میں ایک مرتبہ پھر مختصر وقفہ کیا گیا، جس کے بعد جب دوبارہ معاملہ شروع ہوا تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ افتخار چوہدری کو بھی کونسل نے نوٹس جاری کر کے طلب کیا تھا، ساتھ ہی یہ پوچھا کہ کیا آپ کا مقدمہ یہ ہی ہے کہ نوٹس جاری ہونے کے بعد آرٹیکل 211 کی رکاوٹ آجاتی ہے۔

اس کے جواب میں فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز نوٹس کے بعد کونسل کی کارروائی شروع ہو جاتی ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر کی جانب سے یہ ریمارکس سامنے آئے کہ ایگزیکٹو کو شتربےمہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے، ایگزیکٹو کے اختیارات کا جائزہ لینے کیلئے عدالتی فیصلے میں کچھ چیزوں کا تعین کیا گیا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اس طرح تو آزاد عدلیہ کا معاملہ ہی ختم ہوجائے گا، یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی کا ہے، ہم کسی شخص یا ادارے کیخلاف نہیں ہیں، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آپ آئین اور قانون کے ساتھ ہیں تو میں آپ کے ساتھ ہوں، آپ کو ہماری نیت پر کوئی شک ہے؟

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم، پی ٹی آئی رہنماؤں کی لندن میں جائیدادیں ہیں، جسٹس فائز عیسیٰ

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ شوکاز نوٹس کے بعد ایگزیکٹو کے اختیارات ضم ہوجاتے ہیں، اسی پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر نے کہا کہ افتخار چوہدری کے ریفرنس میں کونسل کی بات بھی کی گئی ہے، جوڈیشل کونسل کی تشکیل مکمل نہ تھی، ججز کو جہازوں پر لایا گیا تھا۔

اس مقدمے میں کچھ طے ہونا ہے، عدالت

طویل سماعت میں بینچ کے سربراہ کی بات کے فوری بعد جسٹس مقبول باقر نے یہ کہا کہ افتخار چوہدری کے کیس میں کچھ چیزیں سنگین تھیں، اس مقدمے میں بھی کچھ چیزیں سنگین ہیں، اگر ہم لکھنے پر آئے تو وہ چیزیں لکھیں گے، اس مقدمے میں کچھ طے ہونا ہے اس میں ہماری قربانی ہو جاتی ہے تو کوئی بات نہیں۔

اس موقع پر سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر کسی چیز کی بنیاد غلط ہو تو کوئی ڈھانچہ کیسے برقرار رہ سکتا ہے، اس سوال پر آپ کا موقف کیا ہے، جس پر فروغ نسیم بولے کے ڈسپلنری باڈی صدر مملکت نہیں بلکہ جوڈیشل کونسل ہے، جس پر سربراہ بینچ نے کہا کہ اس دلیل کے مطابق ریفرنس تصویر سے ہی ختم ہوگیا۔

تاہم عدالتی ریمارکس پر فروغ نسیم نے کہا کہ شوکاز نوٹس کے بعد کارروائی کونسل کا اختیار ہے، کونسل کی کارروائی 3 جھرنوں سے شروع ہوکر ایک جھرنے پر پہنچتی ہے، وہ آخری جھرنہ شوکاز نوٹس ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے ایک مواد آگیا ہے، شوکاز نوٹس کے بعد یہ باتیں پیچھے رہ گئیں کہ مواد کیسے اکٹھا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت جوڈیشل کونسل کو صرف معلومات فراہم کرتے ہیں، صدارتی ریفرنس بھی کونسل کی رائے کیلئے معلومات پر مبنی ہوتا ہے، کونسل اپنی بصیرت کے مطابق جائزہ لے کر کارروائی کرتی ہے۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا پھر کونسل کو بد نیتی کا جائزہ لینے کا اختیار ہے، جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ بدنیتی کے الزام کا جوڈیشل کونسل نے مکمل جائزہ لیا، بدنیتی کا جائزہ لینے کیلئے کونسل کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

حکومتی وکیل کی بات پر جسٹس مقبول باقر بولے کہ کونسل نے بدنیتی کا جائزہ لے کر کیا آبزرویشن دی، اس پر فروغ نسیم نے یہ کہا کہ کونسل نے جج کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا، جس پر پھر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ صدر مملکت کے اقدام میں کوئی غلطی ہے تو اسکا جائزہ کون لے گا۔

عدالتی بینچ کے رکن کی بات پر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل فیکٹ فائنڈنگ فورم ہے، یہ فیکٹس پر فائنڈنگ دے سکتی ہے، بدنیتی کا جائزہ کونسل نہیں لے سکتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کونسل کہہ سکتی کہ جج کی انکوائری بعد میں کریں گے، پہلے جس نے ریفرسن بھیجا ہے اس کی انکوائری کریں، اس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کونسل حقائق کی بدنیتی پرآبزرویشن دے سکتی ہے۔

عدالت میرٹ پر مقدمے کا فیصلہ کرے، منیر اے ملک

اس موقع پر معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کی بات پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت میرٹ پر مقدمے کا فیصلہ کرے، میں نے یہ مقدمہ اس لیے نہیں لیا تھا کہ یہ جسٹس قاضی فائزعیسٰی کا مقدمہ ہے، میں نے عدلیہ کی آزادی کے لیے یہ مقدمہ لیا۔

منیر اے ملک نے کہا کہ میرے موکل نے ہدایت دی ہے کہ عدالت میرٹ پر مقدمے کا فیصلہ کرے، جس قسم کی مہم میرے موکل کیخلاف ہوئی اس کے بعد وہ میرٹ پر فیصلہ چاہتے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ تحریری جواب کے ساتھ دستاویزات دے دیں لیکن جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو ویڈیو لنک پر بیان دینے کا موقع دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کل ہوگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ منیر اے ملک اپنے موکل سے پوچھ کر بتا دیں بیگم صاحبہ کے ویڈیو بیان کا دورانیہ کتنا ہو، بعد ازاں کیس کی سماعت کل (جمعرات) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

وزیراعظم، شہزاد اکبر سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کی لندن میں جائیدادیں، جسٹس عیسیٰ

خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں بذریعہ درخواست جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دھماکا خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں تلاش کے دوران اثاثہ برآمدگی یونٹ کے چیئرمین مرزا شہزاد اکبر اور وزیراعظم عمران خان کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں اور سابق صدر پرویز کی لندن میں جائیدادوں کی معلومات ملی ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست میں درخواست گزار جج نے کہا تھا کہ انہیں شہزاد اکبر کے اس دعوے کہ برطانیہ میں کسی کی بھی جائیداد سرچ انجن 192ڈاٹ کام کے ذریعے تلاش کی جاسکتی ہے سے ایک اشارہ ملا۔

مزید پڑھیں: جج کے خلاف ریفرنس عدلیہ کی آزادی کیلئے خطرہ نہیں، اٹارنی جنرل

انہوں نے بتایا کہ سرچ انجن کو کچھ معروف شخصیات کی جائیدادیں تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، جس کے تنائج کے مطابق برطانیہ میں عمران خان کی جائیدادیں 6، شہزاد اکبر کی 5 ، سابق معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کی ایک، ذوالفقار بخاری کی 7، عثمان ڈار کی 3، جہانگیر ترین کی ایک اور پرویز مشرف کی 2 جائیدادیں ہیں۔

جج کا کہنا تھا کہ یہ تمام افراد معروف عوامی شخصیات ہیں اور انکم ٹیکس، فارن ایکسچینج یا منی لانڈرنگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے برطانیہ میں غیر قانونی جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرنے سے قبل فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کو اپنا ریکارڈ چیک کرنا چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے کہ کتنی قابل ٹیکس آمدن ظاہر ہے اور ان شخصیات نے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا ان افراد کی آمدن قابل ٹیکس تھی کیوں کہ زرعی زمین انکم ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنٰی ہے۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ اثاثہ برآمدگی یونٹ کو غیر قانونی اور بغیر کسی قانون کے کام کرنے والا قرار دیا جائے اوریونٹ کی درخواست گزار جج اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف ریفرنس کے زمرے میں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ شہزاد اکبر اور اثاثہ برآمدگی یونٹ کے ضیا مصطفیٰ نسیم کے خلاف حکام جن اور ان کے اہلِ خانہ کی دستاویزات، ریکارڈز تک رسائی، حصول نقول تیار کرنے اور اسے آگے بڑھانے پر متعلقہ قوانین کے تحت قانونی چارہ جوئی کریں جن میں بینکنگ آرڈیننس 1962، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی آرڈیننس 2000 انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 شامل ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ گزشتہ برس سال میں شروع ہوا تھا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

اس حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 2 ریفرنسز میں شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیداد ظاہر نہ کرنے کے صدارتی ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: 'قانون دکھادیں کہ جج کو اپنی اور اہلخانہ کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا تاہم یہ ریفرنس بعد میں خارج کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں7 اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس ذاتی طور پر چیلنج کیا تھا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ میری درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔

صدارتی ریفرنس سے متعلق مختلف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحلیل ہوجانے کے بعدعدالت عظمیٰ کے 10 رکنی فل کورٹ نے 14 اکتوبر کو سماعت کا آغاز کیا تھا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں