چیف جسٹس نے عدلیہ، ججز مخالف ویڈیو کلپ پر از خود نوٹس لے لیا

اپ ڈیٹ 25 جون 2020
کیس کی سماعت بینچ ون میں مقرر کی گئی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
کیس کی سماعت بینچ ون میں مقرر کی گئی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے اس ویڈیو کلپ پر از خود نوٹس لے لیا جس میں عدلیہ اور ججز کے خلاف توہین آمیز جملے استعمال کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ نے آغا افتخار الدین مرزا کے ویڈیو کلپ پر نوٹس لیتے ہوئے کیس کی سماعت مقرر کردی۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی اہلخانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف شکایت

عدالت عظمیٰ کے ترجمان شاہد حسین کے مطابق کیس کی سماعت کل (26 جون) کو بینچ ون میں مقرر کی گئی۔

نوٹس کا عکس
نوٹس کا عکس

اس سے قبل سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے پولیس کو آگاہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

انہوں نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ 'میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہوں جو سپریم کورٹ کے جج ہیں اور انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے'۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے مزید کہا کہ ایک شخص نے ویڈیو میں کہا تھا کہ ان کے شوہر کو سرعام گولی ماری جائے۔

انہوں نے اپنی شکایت کے ساتھ دھمکی آمیز ویڈیو پیغام پر مشتمل یو ایس بی بھی جمع کروائی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ پر ان کے شوہر کو دھمکی دینے والے شخص کا نام آغا افتخار الدین مرزا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ انہوں نے 2 دستاویزات کے پرنٹ آؤٹس نکالے تھے جو ویڈیو میں ظاہر ہونے والے لنکس سے حاصل کیے تھے لیکن وہ نہیں جانتی کہ یہ اس شخص کا اصل نام تھا یا نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے شکایت میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کو قتل کی دھمکی دینا دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔

مزید پڑھیں: فائز عیسیٰ کیس: 'کسی نے نہیں کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، قانون کے مطابق ایسا ہوسکتا ہے'

بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔

بعدازاں 19جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔

یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا تھا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں