اسلام آباد: پاکستان نے الزام عائد کیا ہے کہ متنازع ہمالیائی سرحد پر جھڑپ میں چینی فوجیوں کے ہاتھوں بھارتی فورسز کو جو خفت اٹھانا پڑی اس کے بعد بھارت پاکستانی سفارت کاروں کو بے دخل کر کے اپنے عوام کی توجہ اس معاملے سے ہٹانے کی کوشش کررہا ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ لداخ کے علاقے میں 15 جون کو جھڑپ کے بعد پیدا ہونے والی اس کشیدگی پر ہمیں تشویش ہے جس میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے خاص کر اس حوالے سے کہ پاکستان کو ممکنہ طور پر اس میں گھسیٹا جاسکتا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’معالات بہت نازک ہیں اور حالات بہت خراب ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ہائی کمیشن کا عملہ واپس آئے گا تو بھارت کا بھی جائے گا، شاہ محمود

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس تینوں پڑوسی ممالک کے ہمالیہ کے علاقے میں بلند سرحد کی حد بندی پر تاریخی تنازعات ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ برسوں سے بھارت اور پاکستان کے محاذ کو سب سے خطرناک تنازعات میں اسے ایک سمجھا جاتا تھا لیکن بھارتی اور چینی فورسز کے مابین تشدد نے ان کے بارے میں بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔

شاہ محمودقریشی نے بھارت کی جانب سے نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے کے عملے کی نصف تعداد کو جاسوسی کے الزام میں بے دخل کرنے کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اپنے ملک میں توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت نے کوئی حماقت کی تو مناسب جواب کیلئے تیار رہے، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ نے کہا کہ ’یہ الزامات بے بنیاد ہیں‘، ساتھ ان کا کہنا تھا کہ لداخ میں جو شرمندگی اٹھانی پڑی اس کا بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں اس لیے داخلی دباؤ سے بچنے کے لیے وہ توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔

علاوہ ازیں اس حوالے سے بھارت کی وزارت خارجہ کا مؤقف لینے کی کوشش کی تاہم فوری طور پر کوئی جواب نہ مل سکا۔

ادھر شاہ محمود کا کہنا تھا کہ انہیں تشویش ہے کہ بھارت ’جھوٹے فلیگ آپریشن‘ کے ذریعے پاکستان کو علاقائی کشیدگی میں دھکیل سکتا ہے۔

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ بھارتی فوج پاکستانی سرزمین پر کوئی ’مس ایڈوینچر‘ کرسکتی ہے جس کا اسلام آباد کی جانب سے بھرپور جواب دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے فضائی حملے کی غلطی کی تو منہ توڑ جواب دیں گے، وزیرخارجہ

وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان لداخ کے حوالے سے اپنے دیرینہ اتحادی چین کے مؤقف کی تائید کرتا ہے اور حال ہی میں ان کی چین کے اعلیٰ سفارتکار وینگ یی سے ملاقات ہوئی جنہوں نے اس مؤقف کو سراہا۔

خیال رہے کہ چین اور پاکستان کے دیرینہ قریبی، سفارتی اور اقتصادی روابط ہیں۔

چین نے ایشیا اور اس سے آگے زمینی اور سمندری راستے بنانے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت پاکستان کے لیے 60 ارب ڈالر کے منصوبوں کا وعدہ کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں