لاہور: نجی اسکولوں کی طالبات کے اساتذہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات، وزارت انسانی حقوق کا نوٹس

اپ ڈیٹ 03 جولائ 2020
جن اساتذہ پر الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک کی نجی تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے گئے تھے —تصویر: کری ایٹو کامنز
جن اساتذہ پر الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک کی نجی تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے گئے تھے —تصویر: کری ایٹو کامنز

وزارت انسانی حقوق پاکستان نے لاہور کے بڑے اور معروف نجی تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے الزامات کا نوٹس لے لیا۔

اس سلسلے میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’حال ہی میں لاہور کے دو اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں میں لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے سنگین ہراسانی کے الزامات کا نوٹس لے لیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت انسانی حقوق کی ہیلپ لائن 1099 مدد کے لیے دستیاب ہے اور ہم نے وزارت کے علاقائی دفاتر کو اس معاملے سے آگاہ کردیا ہے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر لاہور کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کی طالبات کی جانب سے اساتذہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔

اسکول انتظامیہ نے 4 مرد اساتذہ کو ہراسانی کے الزامات کے بعد ملازمت سے فارغ کردیا تھا لیکن اس خبر سے اتنے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی عدم تحفظ کے حوالے سے والدین اور ماہر تعلیم میں تشویش پائی جاتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ میں قائم لاہور گرامر اسکول (ایل جی اسی) 1 اے 1 برانچ نے 8 طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور انہیں نازیبا تصاویر بھیجنے کے الزام میں اساتذہ کو نوکری سے فارغ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: 14 سالہ لڑکی کے ریپ اور جنسی ہراساں کرنے کے جرم میں ماموں، بھائی کو قید

کچھ طالبات نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بات کی تھی جو منظر عام پر آنے کے بعد مزید طالبات آگے آئیں اور انہی اساتذہ کے حوالے سے اپنی آپ بیتی سے آگاہ کیا جبکہ دیگر اسکولوں کی طالبات نے بھی اس قسم کی شکایات کیں جس سے ظاہر ہوتا ہے اسکولوں میں ہراسانی کس طرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔

جن اساتذہ پر الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک کی نجی تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے گئے تھے اور وہ طلبہ کو اسکول مباحثہ اور سیاست پڑھاتے تھے۔

رپورٹس کے مطابق وہ تقریباً 4 سالوں سے نوجوان لڑکیوں کو اس قسم کی تصاویر اور تحریری پیغامات بھیج رہے اور اسکول کی تقریباً ہر شاخ کی طالبات کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا۔

مزید پڑھیں: میشا شفیع نے ’جنسی ہراساں‘ کیس پر سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

اسکول کی جانب سے اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم اندرونی ذرائع ننے بتایا کہ اس صورتحال پر اسکول کی انتظامیہ مشکل میں پڑ گئی ہے اور کوئی ٹھوس حل نکالنے کی ’بھر پور کوشش‘ کررہی ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’تمام اسکولوں کے اساتذہ اور ڈائریکٹرز اس انکشاف سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں کیوں کہ مسئلے والی بات یہ ہے کہ طالبات نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کے شکایت کرنے پر انتظامیہ نے اسے نظر انداز کردیا‘۔

اس حوالے سے زیادہ تر گفتگو انسٹاگرام پر سامنے آئی، ایک طالبہ نےاپنی شکایت میں کہا کہ وہ (استاد) جب بھی مجھ سے بات کرتے تھے تو اپنی ہونٹ کاٹتے تھے جس سے مجھے عدم تحفظ محسوس ہوتا تھا‘۔

ایک دوسری طالبہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ استاد نے انہیں اپنے ساتھ تصویر لینے پر مجبور کیا اور کہا کہ وہ روز رات کو سونے سے قبل اسے دیکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سفیر پر خواتین کو ’جنسی ہراساں‘ کرنے کے الزامات

ایک طالبہ کا یہ دعویٰ تھا کہ جب انہوں نے استاد کی شکایت کرنے کی کوشش کی تو وہ کلاس میں آئے اور ان کی طرف دیکھ کر کہا کہ ’کسی نے مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی تو اسے ٹھیک کردوں گا‘ ساتھ ہی مارکس کاٹنے کی بھی دھمکی دی۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’شکایت کرنے والی طالبات کو شرمندہ کرنے کا کلچر ہے اور یہ صرف ایک اسکول سے متعلق نہیں بلکہ ہر دوسرے اسکولوں میں بھی ہے۔

کچھ شکایات میں ساتھ طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے، اس حوالے سے ایک ٹیچر نے اشرافیہ کے ایک اسکول سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک دو سال قبل میری ایک طالبہ کو ان لڑکوں نے گینگ ریپ کیا جس پر اس نے خودکشی کی کوشش کی اور وہ اب تک اس صدمے سے سنبھل نہیں پائی‘۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے طلبہ کے ایک گروپ کے بارے میں بھی سنا ہے اور یہ گینگ لڑکیوں کو ہراساں کرتا ہے۔

اس ضمن میں ڈان نے مشتبہ اساتذہ اور اسکول انتظامیہ سے ان کا مؤقف لینی کی کوشش کی تاہم کسی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں