ججز کو دھمکیاں دینے والا شخص 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2020
آغا افتخار کے خلاف عدلیہ اور ججز کو دھمکیاں دینے اور برا بھلا کہنے پر کارروائی جاری ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
آغا افتخار کے خلاف عدلیہ اور ججز کو دھمکیاں دینے اور برا بھلا کہنے پر کارروائی جاری ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما آغا افتخار الدین مرزا کو 7 روز کے جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور دیگر ججز کو دھمکیاں دینے اور برا بھلا کہنے پر مذکورہ شخص کے خلاف کارروائی جاری ہے۔

اس سلسلے میں آغا افتخار الدین مرزا کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا گیا جس میں غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ ایک ’نجی تقریب‘ میں انہوں نے ’غیر دانستہ‘ طور پر معزز ججز کے خلاف کچھ الفاظ ادا کیے۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کیخلاف ویڈیو از خود نوٹس کیس: ایف آئی اے کے سربراہ سپریم کورٹ طلب

ساتھ ہی ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ویڈیو ان کی مرضی کے بغیر ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے چیف جسٹس نے عدلیہ بالخصوص جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز، حقارت بھری اور گستاخانہ زبان استعمال کرنے پر از خود نوٹس لیا تھا۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن کے سامنے افتخار مرزا کو پیش کیا اور ان کے معاونین تک پہنچنے کے لیے تفتیش کرنے کی غرض سے جسمانی ریمانڈ پر تحویل کی استدعا کی۔

جس پر عدالت نے ملزم کا 7 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ ان کا طبی معائنہ بھی کروایا جائے۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے عدلیہ، ججز مخالف ویڈیو کلپ پر از خود نوٹس لے لیا

بیان حلفی میں مزید کہا گیا کہ ’ایک نجی تقریب میں دورانِ گفتگو انہوں نے غیر ارادی طور پر عدلیہ اور معزز ججز کے خلاف کچھ الفاظ ادا کیے، جس پر انہیں بے حد پشیمانی ہے اور ان الفاظ پر معذرت خواہ ہیں، وہ غیر مشروط معافی کی درخواست کرتے ہپں اور اپنے آپ کو سپریم کورٹ پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ افتخار مرزا کو برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016، انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6 کے ساتھ ساتھ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 500 کے تحت کارروائی کا سامنا ہے۔

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اہل خانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے لیے پولیس کو درخواست دی تھی جس میں مذکورہ ویڈیو کلپ کا ذکر تھا بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے اس معاملہ پر از خود نوٹس لے لیا تھا۔

چنانچہ 26 جون کو سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت میں عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا اور آغا افتخار مرزا کو طلب کیا تھا اور اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی اہلخانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف شکایت

سماعت میں جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ ویڈیو میں ملک کے ادارے کو دھمکی دی گئی، اس ادارے کے جج کا نام تضحیک آمیز انداز سے لیا گیا تو ریاستی مشینری نے ایکشن تاخیر سے کیوں لیا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایسا کوئی میکانزم نہیں کہ ہر سوشل میڈیا کی چیز کو مانیٹر کیا جاسکے، سوشل میڈیا اس قسم کے مواد سے بھرا پڑا ہے۔

گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ایف آئی اے کو کچھ کرنا نہیں آتا اور وہ کچھ نہیں کر رہی، ایف آئی اے کے پاس ججز کے دیگر معاملات بھی ہیں لیکن ایف آئی اے نے کسی معاملے پر نتائج نہیں دیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں