امریکا میں تقریباً دو دہائیوں کے بعد پہلے مجرم کو مہلک انجیکشن کے ذریعے سزائے موت دے دی۔

خبررساں ادارے 'اے پی' کے مطابق گزشتہ ماہ امریکی اٹارنی جنرل نے فیڈرل بیورو آف پریزنز (وفاقی قیدی بیورو) نے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے احکامات جاری کیے تھے۔

مزیدپڑھیں: امریکا: 17 برس بعد مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد کا شیڈول جاری

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے 2003 سے سزائے موت کے منتظر قیدیوں سے متعلق احکامات دیے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے جاری شیڈول کے مطابق 13 جولائی کو ڈینیئل لیوس ، 15 جولائی کو ویسلی پورکی، 17 جولائی کو ڈسٹن ہنکن اور 28 اگست کو کیتھ نیلسن کی سزاؤں پر عمل ہوگا۔

خبررساں ادارے کے مطابق ڈینیئل لیوس نے 1990 کی دہائی میں ارکنساس میں ایک خاندان کے تمام افراد کو قتل کردیا تھا تاکہ بحرالکاہل کے شمال مغرب میں سفید فام کی واحد قوم آباد ہوسکے۔

ڈینیئل لیوس کے اہلخانہ نے سزائے موت پر ہونے والے عملدرآمد پر شدید اعتراض اٹھایا تھا۔

47 سالہ ڈینیئل لیوس کو انڈیانا کے ٹیری ہوٹی میں واقع فیڈرل جیل میں مہلک انجیکشن دیا گیا جبکہ مجرم نے اپنی سزائے موت سے قبل کہا کہ وہ بے گناہ ہے۔

مزید پڑھیں: دنیا میں سزائے موت کے 10 طریقے

ڈینیئل لیوس نے کہا کہ 'میں نے یہ نہیں کیا، میں نے اپنی زندگی میں بہت ساری غلطیاں کی ہیں لیکن میں قاتل نہیں ہوں'۔ اس کے آخری الفاظ تھے 'تم لوگ معصوم شخص کا قتل کررہے ہو'۔

ڈینیئل لیوس کے وکیل روتھ فریڈمین نے کہا کہ 'یہ شرمناک بات ہے کہ حکومت وبائی امراض کے دوران سزائے موت پر عمل پیرا ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ' آخر کار حکومت نے جلد بازی میں سزائے موت دے دی'۔

واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے انتہائی زہریلے انجکشن سے سزائے موت پر عملدرآمد شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن عدالت نے حکم امتناع جاری کردیا تھا۔

تاہم ٹرمپ انتظامیہ کو اپریل میں اس وقت کامیابی ملی جب امریکی عدالت برائے کولمبیا سرکٹ نے ضلعی جج کے حکم نامے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس نے چاروں مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

اٹارنی جنرل ولیم بار نے چاروں مجرموں کے حوالے سے ایک بیان میں کہا تھا کہ قوانین کے تحت مکمل اور منصفانہ کارروائی کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن سمیت امریکا بھر میں نسل پرستی کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج

انہوں نے کہا تھا کہ 'ہم خوفناک جرائم کا نشانہ بننے والے افراد اور ان کے سوگوار خاندانوں کے لیے اپنے نظام انصاف کے ذریعے عائد سزا کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں'۔

امریکا میں زہریلے انجیکشن کے ذریعے سزائے موت دینے کا اصول یہ ہوتا ہے کہ مجرم کو انجیکشن دینے والے کا چہرہ چھپا کر رکھا جاتا ہے۔

بیشتر امریکی ریاستوں میں کوئی فرد ہی اس زہریلے ٹیکے کو قیدیوں کو لگاتا ہے جبکہ کچھ جگہ مشینوں کو بھی استعمال کیا گیا، تاہم تکنیکی خرابیوں کے باعث اسے ختم کردیا گیا۔

عام طور پر زہریلے ٹیکے کے لیے پینتھاہول کو استعمال کیا جاتا ہے جو عام طور پر آپریشن کے دوران مریضوں کے لیے بے ہوش کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تاہم اس کی مقدار 150 ملی گرام رکھی جاتی ہے، جبکہ سزائے موت کے قیدی کے لیے یہ مقدار 5 ہزار ملی گرام ہوتی ہے، جبکہ پوٹاشیم کلورائیڈ اور دیگر زہروں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں