توہین عدالت کیس: ایف آئی اے نے مرزا افتخار الدین سے متعلق رپورٹ جمع کرادی

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2020
تمام بینکوں سے مرزا افتخار الدین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
تمام بینکوں سے مرزا افتخار الدین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر ججز سمیت عدلیہ مخالف اور توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کیس میں مولوی مرزا افتخار الدین کی زندگی سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔

خیال رہے کہ مرزا افتخار الدین عدلیہ کے خلاف توہین آمیر بیان پر توہین عدالت کیس کا سامنا کررہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی عبوری رپورٹ کے مطابق مرزا افتخار الدین نے ایران میں دینی تعلیم حاصل کی۔

انہوں نے 1972 میں چناب نگر سے بی ایس سی کیا اور پراپرٹی کے کاروبار کے علاوہ 2010 سے 2018 تک اقرا اسکول اور کالج چلایا۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اقرا ویلفیئر آرگنائزیشن مقامی سطح پر اور بیرون ملک فنڈز اکٹھا کرکے قائم کی گئی ہے اور اس میں یتیموں کے لیے ایک ہاسٹل موجود ہے۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے عدلیہ، ججز مخالف ویڈیو کلپ پر از خود نوٹس لے لیا

رپورٹ کے مطابق مرزا افتخار الدین نے عمرہ، زیارت اور تعلیمی مقاصد کے لیے سعودی عرب، عراق، ایران اور شام کا سفر کیا تھا اس کے علاوہ ان کے ایران، آسٹریلیا، امریکا، انگلینڈ اور کینیڈا میں مقیم طلبہ، دوستوں اور رشتہ داروں سے ٹیلی فونک رابطے ہیں۔   ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق ایران کے جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد اپنے سوشل میڈیا (یوٹیوب چینل اور فیس بک پیجز) دھمکی آمیز مواد اپلوڈ کرنے کی وجہ سے فیس بک حکام نے ان کی تمام لائیو کوریج کو بلاک کردیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جب ان کے فیس بک اکاؤنٹ 'اکبر جانی' کی لائیو اسٹریمنگ کو بھی محدود وقت کے لیے بلاک کردیا گیا تو انہوں معرفتِ الٰہی اور دین شاہناس جیسے مختلف اکاؤنٹس بنائے۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر 698 ویڈیوز اپلوڈ کی گئی ہیں، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تمام ویڈیوز کی جانچ پڑتال جاری ہے اور جب ان میں سے کسی کو بھی پاکستان کے کسی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا تو فرانزک تجزیہ کیا جائے گا۔

 رپورٹ کے مطابق مرزا افتخارالدین کی سفری تاریخ سے معلوم ہوا کہ وہ ایران، عراق، شام، کویت اور سعودی عرب گئے تھے لیکن سفری رجحان غیر معمولی نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ججز کےخلاف توہین آمیز ویڈیو پر ملزم افتخارالدین کی معافی مسترد، توہین عدالت کا نوٹس

جن سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر قابل اعتراض ویڈیو اپلوڈ کی گئی تھی اس کے سبسکرائبر (subscriber) سے وابستہ موبائل نمبر کی تفصیلات کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آرز) کے ساتھ حاصل کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سی ڈی آر کے تجزیے سے ایران، سعودی عرب، جنوبی کوریا، ملائیشیا، چین، زمبیا اور برطانیہ بین الاقوامی فون کالز کے علاوہ ان کے این ٹی سی، پی ٹی سی ایل اور موبائل فون نمبرز پر بھی رابطے سے متعلق علم ہوا۔   ایف آئی اے نے کہا کہ ریونیو حکام سے مرزا افتخار الدین کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کا ریکارڈ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے اور ان کے جواب کا انتظار ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر سے بھی اقرا ویلفیئر آرگنائزیشن کی معلومات اور ریکارڈ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: عدلیہ کیخلاف ویڈیو از خود نوٹس کیس: ایف آئی اے کے سربراہ سپریم کورٹ طلب

اسی طرح فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکیورٹی ایجوکیشن اسلام آباد سے اقرا پبلک اسکول اور کالج کا ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے۔

کالج ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2010 سے 2018 کے درمیان مجموعی طور پر 532 طلبہ نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔

رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین سے مرزا افتخار الدین کے ٹیکس گوشوراے اور ویلتھ اسٹیٹمنٹس فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

مزید برآں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی مجاز عدالت سے اجازت حاصل کرنے کے بعد تمام بینکوں سے مرزا افتخار الدین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔  

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 24 جون کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے پولیس کو ایک درخواست دی تھی جس میں کہا گیا کہ ان کے خاندان کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

انہوں نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ 'میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہوں جو سپریم کورٹ کے جج ہیں اور انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے'۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے مزید کہا تھا کہ ایک شخص نے ویڈیو میں کہا تھا کہ ان کے شوہر کو سرعام گولی ماری جائے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی شکایت کے ساتھ دھمکی آمیز ویڈیو پیغام پر مشتمل یو ایس بی بھی جمع کروائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی اہلخانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف شکایت

لیکن اگلے ہی روز چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے آغا افتخار الدین کی ججز، عدلیہ کے خلاف اس ویڈیو کلپ پر علیحدہ سے نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد 26 جون کو پہلی سماعت پر عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا اور آغا افتخار مرزا کو طلب کیا تھا اور اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی ہے۔

عدالتی کارروائی کے بعد آغا افتخار کو حراست میں لیا گیا تھا اور 30 جون کو انسداد دہشت گردی عدالت نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے آغا افتخار الدین مرزا کو 7 روز کے جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کردیا تھا۔

بعدازاں 2 جولائی کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر ججز سمیت عدلیہ مخالف اور توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کیس میں مولوی آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں