جنس تبدیلی کے بعد لڑکی کی لڑکی سے شادی، معاملے پر میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2020
مبینہ طور پر 2 لڑکیوں نے آپس میں شادی کی تھی—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
مبینہ طور پر 2 لڑکیوں نے آپس میں شادی کی تھی—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے لڑکی کی جنس کی تبدیلی کے بعد لڑکی سے شادی کرنے کے کیس میں میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دے دیا۔

عدالت عالیہ کے راولپنڈی بینچ کے جسٹس صداقت علی خان نے ٹیکسلا میں مبینہ طور پر شادی کرنے والی لڑکیوں کے کیس کی سماعت کی۔

اس دوران مبینہ دلہا آکاش علی (عاصمہ بی بی) اور دلہن نیہا پیش ہوئیں جبکہ ان کے وکیل بھی عدالت میں موجود تھے۔

مزید پڑھیں: جنس تبدیلی کی خواہشمند خاتون کا اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع

دوران سماعت عدالت میں آکاش علی نے بتایا کہ انہوں نے شروع سے لڑکی کی زندگی گزاری اپنی شناخت نہیں چھپائی تاہم اب انہوں نے جنس تبدیل کروالی ہے اور وہ مکمل مرد بن چکے ہیں۔

اس موقع پر انہوں نے عدالت میں جنس کی تبدیلی سے متعلق ایک نجی لیب کی رپورٹ بھی پیش کی۔

انہوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ میں نیہا کو پسند کرتا تھا لیکن نیہا کی پھپھو مجھے پسند کرتی تھی۔

آکاش علی کی بات پر عدالت نے نیہا سے پوچھا کہ کیا آپ آکاش علی سے مطمئن ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ جی ہاں میں مطمئن ہوں۔

تاہم اس دوران نیہا کے والد نے آکاش علی کی جانب سے پیش کی گئی نجی لیب کی رپورٹ پر اعتراض کیا، جس پر آکاش علی کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کا میڈیکل کرایا جا سکتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ڈی ایچ کیو ہسپتال کے ایم ایس کو میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دے دیا۔

مذکورہ میڈیکل بورڈ یہ تعین کرے کہ کہ آکاش علی مرد ہے یا عورت، جس کے بعد تبدیلی جنس کے حوالے سے میڈیکل بورڈ آئندہ سماعت پر جواب دے گا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کو 21 جولائی تک ملتوی کردیا۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ ٹیکسلا کی رہائشی مبینہ طور پر ان دونوں لڑکیوں نے آپس میں شادی کی تھی۔

تاہم عاصمہ بی بی نے اپنی جنس تبدیل کرواکر شناختی کارڈ میں اپنا نیا نام آکاش رکھا تھا، دونوں نے عدالت میں پیش ہوکر کورٹ میرج کی تھی۔

تاہم دلہن یعنی نیہا کے والد کو معاملے کا پتا لگنے پر انہوں نے اسے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ کے سامنے چیلنج کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جنس تبدیلی کی درخواست:عدالت کا ہسپتال کو خاتون کو سہولت فراہم کرنے کا حکم

عدالت میں یہ درخواست وکیل راجا امجد جنجوعہ کے توسط سے دائر کی گئی، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ دونوں لڑکیوں کے نکاح نامے کا اندراج کنٹونمنٹ بورڈ وارڈ 10 میں ہوا۔

وکیل کے مطابق آکاش علی کے لڑکی ہونے کی تمام دستاویزات عدالت کو فراہم کی گئیں جبکہ نادرا سے عاصمہ بی بی نے اپنا شناختی کارڈ تبدیل کروایا۔

امجد جنجوعہ کے مطابق عاصمہ بی بی کہتی ہیں کہ انہوں نے جنس تبدیل کروائی جبکہ پاکستان میں جنس کی تبدیلی ناممکن بھی ہے اور یہ غیر شرعی عمل بھی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں