گندم کی کٹائی کے 2 ماہ بعد آٹے کی قیمتوں میں اضافے پر وفاقی وزیر حیران

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2020
انہوں نے کہا کہ ملک کو عوام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے 15 لاکھ ٹن اضافی گندم درکار ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ ملک کو عوام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے 15 لاکھ ٹن اضافی گندم درکار ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک فخر امام نے کٹائی کے سیزن کے فوری بعد گندم اور آٹے کی مہنگے داموں فروخت پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر کا بیان اس بات کے اشارے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں گندم کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

فخر امام نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کٹائی کے بعد صرف 2 ماہ قبل کاشتکاروں سے 60 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی اور اب وہ ’مارکیٹ سے غائب‘ ہوگئی ہے۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’60 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں گئی‘۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت ملک میں گندم کا مصنوعی بحران پیدا کررہی ہے، مرتضیٰ وہاب

انہوں نے کہا کہ ملک کو عوام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے 15 لاکھ ٹن اضافی گندم درکار ہے، اس لیے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے جبکہ ہم نے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

فخر امام کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں نے گندم 14 سو روپے فی من فروخت کی اور اب گندم 18 سو اور 2 ہزار روپے فی من پر فروخت کی جارہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ملک میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے مزید ڈیمز تعمیر کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔

وزیر تحفظ خوراک کا کہنا تھا کہ ملک کا نہری نظام خستہ حال ہوگیا ہے اور زرعی ترقی کے لیے اس کی از سر نو بحالی کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی غیر آئینی ہے اور اگر ضروری ہے تو ایوان کے سامنے اس کی جامع رپورٹ پیش کی جانی چاہیے۔

مزید پڑھیں: آٹے کی قیمت بڑھنے پر اقتصادی رابطہ کمیٹی کی گندم کی درآمدات بڑھانے کی ہدایت

اسپیکر قومی اسمبلی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی تو اب کہاں غائب ہوگئی۔

رکن قومی اسمبلی سردار ذوالفقار علی نے کہا کہ زراعت ایک اہم شعبہ ہے اور حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے، اور سب سے پہلے ہمیں اس سے منسلک اداروں اور زرعی جامعات کی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی جبکہ ہمارا محکمہ ذراعت بھی کسان دوست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں کہیں کوئی کسان رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی چیمبر ہے، انہوں نے کسانوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے سبسڈی دینے کی ضرورت پر زور دیا ساتھ ہی یہ تجویز بھی دی کہ زرعی اشیا کی قیمتوں کو ایک سال کے لیے منجمد کردیا جائے۔

اس ضمن میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رانا قاسم نون کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے کسانوں کی بہتری کے لیے کسی بھی حکومت سے زیادہ اقدامات اٹھائے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گندم خیبرپختونخوا سے اسمگل ہورہی ہے، بحران کا خدشہ ہے، قمر زمان کائرہ

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ کسانوں کو شوگر ملز مالکان کے مظالم سے بچایا جائے اور کسانوں کے لیے 50 ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے۔

فخر امام نے کہا کہ ایوان میں پیش کی گئی تجاویز قابل ستائش ہیں اور چونکہ وزیراعظم عمران خان ہمیشہ کسانوں کی فلاح و بہبود کی بات کرتے ہیں اس لیے ان پر ضرور غور کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے شعبہ زراعت کے لیے ایک قلیل مدتی پالیسی وضع کی ہے جس کے تحت کسانوں کو معیاری بیج فراہم کیے جائیں گے، گندم کپاس، چاول اور گنا اہم فصلیں ہیں ہم صوبوں سے کہیں گے کہ کپاس کی کاشت میں اضافہ کریں۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کے زرعی تحقیق کے ادارے درکار فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں دے پارہے اور ہمارا سب سے بڑا زرعی تحقیقی ادارہ پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل اور نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل مطلوبہ نتائج نہیں دے رہے اب حکومت کی خواہش ہے کہ بیج پیدا کرنے والے اداروں کی تجدید کی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں