پیراگون سٹی کیس: ’نیب ملک و قوم کی خدمت کے بجائے اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے‘

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2020
سپریم کورٹ نے 17 مارچ کو پیراگون سوسائٹی کیس میں خواجہ برادران کی ضمانت منظور کی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے 17 مارچ کو پیراگون سوسائٹی کیس میں خواجہ برادران کی ضمانت منظور کی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پیراگون سٹی کرپشن کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے طرز عمل کو قانون، عدل، انصاف اور معقولیت کی مکمل خلاف ورزی کا واضح اظہار قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیراگون سٹی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کیس کے 87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا کہ ’موجودہ کیس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی سے غیرقانونی محرومی اور انسانی وقار کو مکمل طور پر اہمیت نہ دینے کی بدترین مثال ہے‘۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں سال 17 مارچ کو سابق وزیر ریلوے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کو 30، 30 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مذکورہ کیس میں ضمانت منظور کرلی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پیراگون ہاؤسنگ کیس: سپریم کورٹ نے خواجہ برادران کی ضمانت منظور کرلی

خواجہ برادران نے گزشتہ برس 18 جون کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی ضمانت مسترد کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جسٹس مقبول باقر نے خواجہ برادران کی ضمانت بعد از گرفتاری سے متعلق درخواست پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ کی سربراہی کی تھی۔

اس حوالے سے گزشتہ روز جاری کیے گئے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے افسوس کا اظہار کیا کہ اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نیب کو سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اس کا امتیازی سلوک بھی اس کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ اس کی صداقت اور غیرجانبداری پر لوگوں کے یقین کو دھچکا لگا ہے۔

فیصلے میں انہوں نے کہا کہ ’بیورو بڑے مالیاتی گھپلوں کی صورت میں بھی ایک جانب کے افراد کے خلاف کارروائی سے گریزاں نظر آتا ہے جبکہ دوسری جانب لوگوں کو بغیر کوئی واضح وجہ بتائے مہینوں اور سالوں کے لیے گرفتار کرلیا جاتا ہے جبکہ قانون کے تحت تفتیش تیزی سے اور ٹرائل 3 روز میں مکمل ہوجانا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: نیب کی بڑے سیاستدانوں کے خلاف میگا کرپشن کیسز پر نظرثانی

فیصلہ میں کہا گیا کہ ’حالانکہ تفتیش اکثر مہینوں تک مکمل نہیں ہوتی اور کیسز برسوں زیر التوا رہتے ہیں، پروفیشنل ازم، مہارت کے فقدان اور مقصد سے مخلص نہ ہونے کی وجہ سے نیب کیسز میں سزا کی شرح انتہائی کم ہے‘۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’مذکورہ بالا یقیناً قومی مفاد کی خدمت نہیں کررہا بلکہ اس کے بجائے ملک، قوم اور معاشرے کو متعدد طریقوں سے ناقابل تلافی نقصان پہنچارہا ہے‘۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ حالانکہ لوٹ مار اور بدعنوانی سے لڑنا ایک نیک مقصد ہے لیکن اس کے لیے اختیار کیا جانے والا طریقہ، کارروائی اور میکانزم قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔

فیصلے میں وضاحت کیا گیا کہ ’کسی شخص کی گرفتاری ایک بڑا معاملہ ہے لیکن گرفتاری کے لیے طاقت کے غلط استعمال سے سنگین نتائج مرتب ہوئے ہیں اس لیے اسے بہت احتیاط اور حساس طریقے سے انجام دینے کی ضرورت ہے‘۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’کسی شخص کی گرفتاری ٹھوس ثبوت اور ایسے قابلِ کارروائی مواد کی بنیاد پر ہونی چاہیے جو اسے جرم سے جوڑتا ہو، گرفتاری کی طاقت کو جبر و استحصال کے آلے کے طور استعمال نہیں کیا جانا چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: نیب توقع کے مطابق فرائض انجام نہیں دے رہا، شبلی فراز

جسٹس مقبول باقر نے لکھا کہ ’کسی شخص کی آزادی سے متعلق کیس میں ہمیں انصاف کے اس بنیادی اصول کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایک شخص اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہوجائے‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’نہ صرف ٹرائل پر موجود ملزم کے تحفظ بلکہ نظام انصاف کی دیانت، صداقت، غیر جانبداری اور تحفظ پر عوام کے یقین کو قائم رکھنے کے لیے بے گناہی کا تصور انتہائی اہم ہے‘۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’آئین میں صرف ایک بنیادی حق ہے جو غیر مشروط، ناقابل منسوخ اور کسی بھی صورت اسے محدود نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہے انسان کی عزت، اور گرفتاری سے قبل قید کے سنگین نتائج میں سے ایک اس قسم کی حراست کے نتیجے میں نہ صرف ملزم بلکہ اس کے اہلِخانہ اور اس سے وابستہ افراد کی ہونے والی بے عزتی ہے‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حراست کسی شخص کی ساکھ اور معاشرے میں اس کے مقام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اسے نفرت، طعنوں اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آج کل پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے دور میں ملزم کی گرفتاری اور اس کے خلاف الزامات، وسوسوں اور چہ مگوئیوں کی بری مہم کو جنم دیتے ہیں جبکہ ملزم اور اس کے اہلِ خانہ کو ذلت و رسوائی، پشیمانی اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کیا ملزم کو ضمانت دینی چاہیے کے جواب میں فیصلہ میں کہا گیا کہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضمانت کا مقصد، ملزم کی ٹرائل میں حاضری یقینی بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا 120 احتساب عدالتوں کے قیام کیلئے سیکریٹری قانون کو حکومت سے ہدایت لینے کا حکم

فیصلے کے مطابق ’تمام مہذب معاشرے اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ سزا صرف جرم ثابت ہونے پر دی جاتی ہے اور جب تک ٹرائل کے بعد سزا نہیں دے دی جاتی، ملزم کو بے گناہ تصور کیا جائے گا، یہ بات دہرانے کی شاید ہی کبھی ضرورت پڑتی ہے کہ ٹرائل سے قبل اور دوران گرفتاری سخت مشکلات کا سبب بنتی ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ملک کو قائم ہونے کے 72 سال اور آئین کے نفاذ کے 47 سال بعد بھی ہم اس کے نظریات کو حقیقی معنوں میں سمجھنے سے قاصر ہیں، اس ملک کی عوام کو مسلسل آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا اور مساوات، عدل اور جمہوری روایات کے لیے برداشت اور احترام کی کھلے عام دھجیاں بکھیری گئیں‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’ہمارے معاشرے میں ہٹ دھرمی، عدم برداشت، اقربا پروری، نااہلیت، رجعت پسندی، دھوکہ دہی، مکر و فریب، خودنمائی، برتری کا غلط احساس، مختلف جانبداریاں اور تعصبات، بدعنوانی پھیل گئی ہے اور معاشرہ ان میں ڈوب چکا ہے‘۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’جب بھی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی کوششیں کی گئی، انہیں پوری طاقت سے ناکام بنادیا گیا‘۔

جسٹس مقبول باقر نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوامی فلاح و بہبود اور تحفیف غربت ہماری ترجیحات میں سب سے نیچے ہیں، بڑے پیمانے پر اختلاف رائے کو دبانا ہماری جمہوریت کے لیے ایک اور لعنت ہے اور مساوات صرف ایک خواب ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کرپشن کینسر ہے، خاتمے کیلئے بڑی سرجری کی ضرورت ہے، چیئرمین نیب

فیصلے میں کہا گیا کہ ’ملزمان کی گرفتاری، ان کے خلاف انکوائری تحقیقات شروع کرنے کا مقصد اور انہیں 15 ماہ کی طویل مدت تک قید میں رکھنا بادی النظر میں قومی احتساب آرڈیننس کی تعمیل یا اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔

فیصلے میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ’نیب چیئرمین نے جس بنیاد پر اس معاملے میں کارروائی کا فیصلہ کیا وہ اب تک نامعلوم ہے، اگر مطلوبہ شکایت اس کی بنیاد تھی تو اس میں یہ بات ظاہر نہیں گئی کہ اصل میں الزام کیا تھا اور اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے نیب کے سامنے کیا معلومات یا مواد رکھا گیا کہ کمپنی انتظامیہ کا طرز عمل قومی احتساب آرڈیننس کی دفعہ 9 کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’بونوں کو منتخب کیا جاتا ہے پروان چڑھایا جاتا ہے اور ترقی دے کر طاقت اور مقام دیے جاتے ہیں، بدنام پس نظر رکھنے والے اور مجرمانہ ساکھ کے افراد حکمرانی کے پیاسے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں