صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے 'اغوا'

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2020
مطیع اللہ جان کے خلاف سپریم کورٹ میں از خود نوٹس زیر سماعت ہے—تصویر: فیس بک
مطیع اللہ جان کے خلاف سپریم کورٹ میں از خود نوٹس زیر سماعت ہے—تصویر: فیس بک

سینئر صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے لاپتا ہوگئے اور اس بات کی تصدیق ان کے اہلیہ نے بھی کردی۔

مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی گاڑی سیکٹر جی 6 میں اسکول کے باہر کھڑی تھی جس میں صحافی کا ایک موبائل فون بھی موجود تھا۔

خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کے خلاف ایک متنازع ٹوئٹ پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا از خود نوٹس زیر سماعت ہے جس کی سماعت رواں ہفتے ہوگی۔

جیسے ہی اس خبر نے صحافیوں اور عالمی تنظیموں کی توجہ حاصل کی اسی دوران مطیع اللہ جان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے 3 بج کر 17 منٹ پر ٹوئٹ کی گئی جو ممکنہ طور پر ان کے بیٹے نے کی۔

ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’میرے والد کو دارالحکومت (اسلام آباد) کے وسط سے اغوا کیا گیا، میں انہیں تلاش کرنے کا اور ان کی گمشدگی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہوں, خدا ان کی حفاظت کرے‘۔

وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے بھی مطیع اللہ جان کے اغوا ہونے کی تصدیق کی اور کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ 'یہ واضح ہوچکا ہے کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا، ہم نہیں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہم اسے نبھائیں گے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج

سوشل میڈیا پر ایک صحافی نے مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج شیئر کی تاہم پولیس نے اس کی تصدیق کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

اطلاع ملنے کے بعد پولیس اسٹیشن آبپارہ کی نفری مذکورہ مقام پر پہنچی، سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عمر خان اور دیگر پولیس افسران بھی موقع پر موجود تھے۔

اس حوالے سے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شوکت محمود نے بتایا کہ ابھی تک مطیع اللہ کی اہلیہ نے درخواست نہیں دی، اسکول کے باہر جہاں گاڑی کھڑی ہے اس کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ججز پر 'تنقید' کا معاملہ: صحافی مطیع اللہ جان کو عدالت عظمیٰ کا نوٹس جاری

مطیع اللہ جان کے اغوا کے فوری بعد سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ٹوئٹ میں بتایا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد کو معاملے پر کمیٹی کو بریف کرنے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے شام کو تقریباً اسڑھے 5 بجے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ابھی ابھی مطیع اللہ جان کے اغوا سے متعلق معلوم ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس 'انتہائی پریشان کن' معاملے کا نوٹس لیا ہے اور آئی جی اسلام آباد سے بات کی ہے جنہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے سینیئر صحافی کے اغوا کو 'ناقابل قبول' قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے بات کی ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ مطیع اللہ جان کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کریں اور مقدمہ درج کریں۔

قبل ازیں آج ہی کے روز صبح 11 بج کر 5 منٹ پر انہوں نے ایک صحافی کا انٹرویو ری ٹوئٹ کیا تھا اور اس کے ساتھ لکھا تھا کہ ’یہ ان لوگوں کی توجہ کے لیے ہے جو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے مصنوعی ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھتے ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ تنقید انسان کے ناقابل تسخیر وقار کی خلاف ورزی سے بھی بڑا جرم ہے‘۔

مقدمہ درج

مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کا مقدمہ تھانہ آبپارہ میں ان کے بڑے بھائی شاہد اکبر کی مدعیت میں درج کر لیا گیا۔

مقدمے میں سینیئر صحافی کے بھائی نے موقف اپنایا ہے کہ 'میرے بھائی کو زبردستی مسلح افراد نے اغوا کیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'اغوا کار کالے رنگ کی وردی میں ملبوس تھے اور انہوں نے گاڑیوں پر پولیس کی لائٹس بھی لگا رکھی تھیں۔'

سیاست دانوں کا اظہار تشویش

اس وقت پاکستان میں ٹوئٹر پر مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا سے متعلق پانچ ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کو انتہائی قابل مذمت اور تشویشناک قرار دیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ 'حکومت کی میڈیا اور ناقدین کو خاموش کرانے کی مہم انتہائی شرمناک ہے، اگر مطیع اللہ جان کو کچھ ہوا تو وزیر اعظم ذمہ دار ہوں گے۔'

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ میں کہا کہ معاملہ 'انتہائی تشویشناک' ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'سلیکٹڈ حکومت فوری طور پر صحافی کی واپسی کو یقنی بنائے، یہ صرف میڈیا کی آزادی اور جمہوریت پر ہی بلکہ ہم سب پر حملہ ہے، آج مطیع اللہ ہیں، کل آپ یا میں ہوسکتے ہیں۔'

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی ’سختی سے مذمت‘ کی اور ان کی ’بحفاظت بازیابی‘ کا مطالبہ کیا۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ’اسلام آباد میں پارلیمنت، سپریم کورٹ اور میڈیا کی ناک کے نیچے سے صحافی کی جبری گمشدگی ایک سنجیدہ معاملہ ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمینٹرینز، ججز اور صحافی صرف ’شاہراہ دستور پر احتجاج کرسکتے ہیں اور کچھ نہیں‘

دریں اثنا اینکر پرسن نجم سیٹھی نے چینج ڈاٹ آرگ پر مطیع اللہ جان کی ’فوری رہائی‘ کے لیے ایک پٹیشن کا آغاز کیا۔

مطیع اللہ جان کون ہیں؟

مطیع اللہ جان صحافی، کمیونیکیشن ٹرینر اور میڈیا کے قانون کے ماہر ہیں جو 'ایم جے ٹی وی' کے نام سے اپنا ذاتی یوٹیوب چینل بھی چلاتے ہیں۔

ان کی لنکڈ اِن پروفائل کے مطابق وہ وقت ٹی وی اور ڈان نیوز کے پروگراموں میں تحقیقی گفتگو کے سابق میزبان اور سپریم کورٹ اور قانونی امور کے نمائندہ خصوصی کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

وہ روزنامہ 'دی نیشن' اور 'نوائے وقت' کے لیے قومی سماجی و سیاسی موضوعات پر کالم بھی لکھ چکے ہیں، وہ شیوننگ اسکالر ہیں اور لندن یونیورسٹی سے بین الاقوامی صحافت اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈیفنس اور اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگریاں بھی حاصل کر رکھی ہے۔

مطیع اللہ جان کی پروفائل کے مطابق انہوں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے بطور کیڈٹ ساڑھے تین سال کی فوجی ٹریننگ بھی حاصل کی تھی۔

وہ ریڈیو پاکستان، دی فرنٹیئر، این این آئی، پی ٹی وی، رائٹرز ٹی وی اور ڈان نیوز سمیت کئی میڈیا و نشریاتی اداروں میں فرائض انجام دے چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں