مطیع اللہ جان کا اغوا: کس کی اتنی ہمت ہے کہ پولیس کی وردی میں یہ کام کیا، عدالت

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2020
مطیع اللہ جان گزشتہ رات باحفاظت گھر واپس پہنچ گئے تھے— فائل فوٹو: فیس بک
مطیع اللہ جان گزشتہ رات باحفاظت گھر واپس پہنچ گئے تھے— فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کو خطرناک قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ کس کی اتنی ہمت ہے کہ پولیس کی وردی میں یہ کام کیا۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر وزارت داخلہ کے نمائندے، چیف کمشنر اور ڈی آئی جی آپریشن عدالت میں پیش ہوئے۔

تاہم مطیع اللہ جان کی بحفاظت واپسی کے باعث اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ہدایات کے ساتھ درخواست نمٹا دی۔

مزید پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے 'اغوا'

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ خطرناک ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا، عام آدمی کے ساتھ بھی وفاقی دارالحکومت میں یہ رویہ نہیں رکھا جا سکتا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جس نے بھی یہ کیا ہے وہ دیگر افراد کو ڈرانا چاہتا ہے، پولیس کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے، کسی کی اتنی ہمت ہے کہ جس نے پولیس کی وردی میں یہ کام کیا، تمام گاڑیوں کے اوپر بھی پولیس لائٹس لگی ہوئی تھیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کو بھی آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانا چاہیے، قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی تو یہاں کچھ نہیں ہوگا بلکہ صرف افراتفری ہوگی۔

سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ صحافی کے خلاف کسی بھی جرم پر دہشت گردی کی دفعات لگتی ہیں، کیا پولیس نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی ہیں؟

جس پر ڈی آئی جی پولیس وقار الدین سید نے کہا کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات کیوں نہیں شامل کیں۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان گھر واپس پہنچ گئے

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عوام کو کیا تاثر ملے گا کہ پولیس کی وردی میں لوگ دندناتے پھر رہے ہیں، کسی کی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ وہ پولیس کی گاڑیاں اور وردی استعمال کرے۔

سماعت کے دوران صحافتی تنظیموں نے کہا کہ اگر عدالت بروقت نوٹس نہ لیتی تو شاید آج ہم سڑکوں پر بیٹھے ہوتے۔

علاوہ ازیں وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ پولیس تفتیش کر کے عدالت کو بتائے کہ اس سارے عمل کے پیچھے کون تھا۔

جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ ریمارکس دیے کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اسلام آباد میں یہ عمل ہوا، سی سی ٹی وی آگئی ہے یونیفارم دیکھا جا سکتا ہے، یہ پولیس کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔

واضح رہے کہ جس وقت مطیع اللہ جان لاپتا تھے ان کے بھائی شاہد اکبر عباسی نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365 کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی اور بیرسٹر جہانگیر خان جدون کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں غیرقانونی حراست سے آزاد کرانے سے متعلق درخواست بھی دائر کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں مطیع اللہ جان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے سماعت کی تھی اور ان کے اغوا پر انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مبینہ طور پر جبری گمشدگی کا مقدمہ ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ صحافی مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اسلام آباد سے اغوا کیا گیا۔

مطیع اللہ جان کا 'اغوا' اور واپسی

خیال رہے کہ گزشتہ روز معروف صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے کچھ افراد اٹھا کر لے گئے تھے۔

مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گاڑی سیکٹر جی 6 میں اسکول کے باہر کھڑی تھی جس میں صحافی کا ایک موبائل فون بھی موجود تھا۔

بعدازاں مطیع اللہ جان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے 3 بج کر 17 منٹ پر ٹوئٹ کی گئی تھی جو ممکنہ طور پر ان کے بیٹے نے کی تھی۔

مزید پڑھیں:مطیع اللہ جان کا اغوا، مبینہ جبری گمشدگی کا مقدمہ ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ 'میرے والد کو دارالحکومت (اسلام آباد) کے وسط سے اغوا کیا گیا، میں انہیں تلاش کرنے کا اور ان کی گمشدگی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہوں, خدا ان کی حفاظت کرے'۔

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر ایک صحافی نے مطیع اللہ جان کے اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج شیئر کی تھی تاہم پولیس نے اس کی تصدیق کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔

اطلاع ملنے کے بعد پولیس اسٹیشن آبپارہ کی نفری مذکورہ مقام پر پہنچی تھی، جس میں سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عمر خان اور دیگر پولیس افسران بھی موقع پر موجود تھے۔

اس حوالے سے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شوکت محمود نے بتایا تھا کہ ابھی تک مطیع اللہ کی اہلیہ نے درخواست نہیں دی، اسکول کے باہر جہاں گاڑی کھڑی ہے اس کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان لاپتا، اپوزیشن کا اسمبلی سے احتجاجاً واک آؤٹ

جس کے بعد مطیع اللہ جان اسلام آباد سے اغوا ہونے کے کئی گھنٹے بعد منگل ہی کو رات گئے گھر واپس پہنچ گئے تھے۔

صحافی اعزاز سید نے ٹوئٹ میں مطیع اللہ جان کے ہمراہ تصویر شیئر کی تھی اور کہا تھا کہ 'میرے دوست کو خوش آمدید کہنے پر خوش ہوں، انہیں 12 گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔'

بعدازاں آج (22 جولائی) صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں مطیع اللہ جان نے کہا تھا کہ میں باحفاظت گھر پہنچ گیا ہوں۔

خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کے فوری بعد سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد کو معاملے پر کمیٹی کو بریف کرنے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ہمراہ مطیع اللہ جان کے گھر گئے تھے اور ان کے اغوا پر تشویش کا اظہار کیا تھا، انہوں نے صحافی کے 2 بھائیوں اور بھابھی سے ملاقات کی تھی جو بعدازاں انہیں مطیع اللہ کے تیسرے بھائی کے گھر لے کر گئے جہاں ان کی اہلیہ اور بچے موجود تھے۔

ایمنسی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کمیشن، وفاقی وزرا، اپوزیشن جماعتوں اور سیاست دانوں کے علاوہ صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے مطیع اللہ جان کے 'اغوا' پر غم وغصے کااظہار کیا اور فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مطیع اللہ جان کی رہائی اور بخیریت واپسی کے ٹرینڈز بھی نمایاں رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں