سپریم کورٹ نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ان کا بیان ریکارڈ کرنے اور پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صحافی مطیع اللہ کے مبینہ توہین آمیز ٹوئٹس پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس موقع پر صحافی مطیع اللہ جان خود عدالت میں پیش ہوئے۔

خیال رہے کہ 15 جولائی کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ججز پر 'تنقید' کے معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو نوٹس جاری کیا تھا۔

عدالت میں سماعت کے دوران پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل کے نمائندگان اور وکلا بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے گزشتہ روز ہونے والے اغوا کا ذکر آیا تو اس پر عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس کو عدالت طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: ججز پر 'تنقید' کا معاملہ: صحافی مطیع اللہ جان کو عدالت عظمیٰ کا نوٹس جاری

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مطیع اللہ جان کا بیان اب تک ریکارڈ کیوں نہیں ہوا؟ آپ کے حکومتی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانونی کارروائی شروع ہوچکی ہے، اغوا کے معاملے پر فوری کارروائی شروع کی گئی۔

دوران سماعت سپریم کورٹ بار کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اٹھا لیا گیا، کیا یہ بنانا ریپبلک ہے؟ وڈیو موجود ہے، اغوا کاروں کو شناخت کیا جانا چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ مطیع اللہ جان بے باک آواز ہے۔

دوران سماعت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر افضل بٹ بھی عدالت میں پیش ہوئے انہوں نے استدعا کی کہ اس معاملے کو ختم نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اغوا کاروں کو سامنے لایا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس کو ختم نہیں کر رہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے مطیع اللہ جان کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو سینئر صحافی کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے کہا کہ مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے جبکہ آئی جی اسلام آباد آئندہ سماعت پر پیشرفت رپورٹ دیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان سے استفسار کیا کہ آپ نے توہین عدالت کے معاملے میں جواب جمع کرایا؟ جس پر مطیع اللہ جان نے جواب دیا کہ اغوا کے باعث انہیں جواب جمع کرانے کا موقع نہیں ملا، لہٰذا کچھ وقت دیا جائے، اس پر عدالت نے مطیع اللہ جان کو جواب دینے اور وکیل کرنے کا وقت دے دیا۔

ساتھ ہی کیس کی سماعت کو 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا۔

مطیع اللہ جان کا اغوا اور واپسی

واضح رہے کہ 21 جولائی کو سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے اغوا کیا گیا تھا۔

یہ اغوا دارالحکومت کے سیکٹر جی 6 میں ایک سرکاری اسکول کے باہر دن کی روشنی میں ہوا تھا۔

مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گاڑی سیکٹر جی 6 میں اسکول کے باہر کھڑی تھی جس میں صحافی کا ایک موبائل فون بھی موجود تھا۔

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر ایک صحافی نے مطیع اللہ جان کے اغوا کی مبینہ سی سی ٹی وی فوٹیج شیئر کی تھی تاہم پولیس نے اس کی تصدیق کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔

اس 'جبری گمشدگی' نے نہ صرف صحافی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو آواز اٹھانے پر مجبور کیا بلکہ اس نے سیاسی جماعتوں اور سفارتی حلقوں میں بھی تحفظات کو جنم دیا تھا۔

ایمنسی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کمیشن، وفاقی وزرا، اپوزیشن جماعتوں اور سیاست دانوں کے علاوہ صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے مطیع اللہ جان کے 'اغوا' پر غم وغصے کا اظہار کیا اور فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: مطیع اللہ جان کا اغوا: کس کی اتنی ہمت ہے کہ پولیس کی وردی میں یہ کام کیا، عدالت

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مطیع اللہ جان کی رہائی اور بخیریت واپسی کے ٹرینڈز بھی نمایاں رہے۔

علاوہ ازیں جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کی اہلیہ نے بھی مطیع اللہ جان کے گھر کا دورہ کیا تھا اور ان کی اغوا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حمایت کی پیشکش کی تھی، وہ وہاں ان کے دونوں بھائیوں اور اہل خانہ کے دیگر لوگ سے ملے تھے، جس کے بعد انہیں بھائی کے گھر لے جایا گیا تھا جہاں مطیع اللہ جان کی اہلیہ اور بچے موجود تھے۔

یہی نہیں یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا تھا جہاں اپوزیشن جماعتوں اور صحافیوں کی جانب سے ایوان سے واک آؤٹ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں مطیع اللہ جان اسلام آباد سے اغوا ہونے کے تقریباً 12 گھنٹے کے بعد منگل ہی کو رات گئے گھر واپس پہنچ گئے تھے۔

صحافی اعزاز سید نے ٹوئٹ میں مطیع اللہ جان کے ہمراہ تصویر شیئر کی تھی اور کہا تھا کہ 'میرے دوست کو خوش آمدید کہنے پر خوش ہوں، انہیں 12 گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔'

مزید برآں 22 جولائی کی صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں مطیع اللہ جان نے کہا تھا کہ میں باحفاظت گھر پہنچ گیا ہوں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں