رواں ماہ کے شروع میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ نئے کورونا وائرس کے خلاف مختلف تحقیقی رپورٹس میں موثر ثابت ہونے والی ایک دوا ریمیڈیسیور کی اگلے 3 ماہ کے لیے 90 فیصد سپلائی کو امریکا نے خرید لیا ہے۔

تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ ریمیڈیسیور کورونا وائرس کے مریضوں کی جلد صحتیابی میں مدد کرتی ہے۔

امریکا نے ستمبر تک کے لیے اس کے 5 لاکھ سے زائد کورسز کو خرید لیا ہے۔

جولائی کے لیے گیلاڈ کی مجوزہ پروڈکشن کا سو فیصد حصہ امریکا کو دیا جائے گا جبکہ اگست اور ستمبر کی پروڈکشن کا 90 فیصد حصہ بھی امریکا کے پاس جائے گا۔

اب یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ امرکی حکومت نے فیزر انکارپوریشن اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک ایس ای کی جانب سے تیار کی جانے والے کووڈ 19 ویکسین کے 10 کروڑ ڈوز 1.95 ارب ڈالرز میں خرید لیے ہیں۔

کمپنیوں کی جانب سے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ امریکی حکومت کو مزید 50 کروڑ ڈوز خریدنے کی بھی اجازت دی جائے گی۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اربوں ڈالرز کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے موثر ویکسین کی تیاری اور خریداری پر لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

اس مقصد کے لیے آپریشن ریپ اسپیڈ کا آغاز کیا گیا ہے جو کہ ایچ ایچ ایس اور محکمہ دفاع کا مشترکہ پروگرام ہے، جس کا مقصد کورونا وائرس کے خلاف ویکسینز، علاج اور تشخیص کے عمل کو تیز کرنا ہے۔

دنیا بھر میں ڈھائی سو کے قریب کورونا وائرس ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے جن میں سے متعدد انسانی آزمائش کے مرحلے میں بھی داخل ہوکی ہیں۔

مختلف حکومتوں کی جانب سے ویکسینز تیار کرنے والی کمپنیوں سے معاہدے کرکے قبل از وقت ڈوز خریدیں جارہے ہیں۔

فیزر اور بائیو این ٹیک کی ویکسین ان چند ویکسینز میں سے ایک ہے جن کی آزمائش بڑے ٹرائل میں جاری ہے اور انسانی آزمائش کے ابتدائی مراحل میں اس کے نتائج حوصلہ افزا رہے تھے۔

فیزر کی جانب سے امریکا کو ویکسین کے ڈوز اس وقت فراہم کیے جائیں گے جب اسے یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ہنگامی استعمال کی اجازت دے دی جائے گی۔

یہ اجازت اس وقت دی جائے گی جب یہ ویکسین کلینیکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں محفوظ سے موثر ثابت ہوگی۔

دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی قسم کی ریگولیٹری منظوری اکتوبر تک اس وقت حاصل کرنے کے لیے تیار ہوں گی جب جاری تحقیق کامیاب ثابت ہوئی۔

یہ کمپنیاں 2020 کے آخر تک ویکسین کے 10 کروڑ ڈوز تیار کرنے کی خواہشمند ہیں اور 2021 کے آخر تک یہ تعداد ایک ارب 30 کروڑ تک پہنچائی جائے گی۔

اس سے قبل امریکا نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے تیار کی جانے والی تجرباتی ویکسین کے 30 کروڑ ڈوز بھی مئی میں خرید لیے تھے۔

اس مقصد کے لیے امریکا کی جانب سے ویکسین کو تیار کرنے والی کمپنی آسترا زینکا کو 1.2 ارب ڈالرز دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔

اس موقع پر امریکی ہیلتھ سیکرٹریر ایلکس ازر کا کہنا تھا کہ آسترا زینکا کے ساتھ یہ معاہدہ آپریشن ریپ اسپیڈ کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے، جس کا مقصد 2021 تک ایک محفوظ، موثر اور بڑے پیمانے پر دستیاب ویکسین کو یقینی بنانا ہے۔

بیان کے مطابق اس ویکسین کے اولین ڈوز امریکا کو اکتوبر کے شروع میں دستیاب ہوں گے۔

اس کے علاوہ امریکا کی جانب سے ویکسینز کی تیاری میں مصروف دیگر کمپنیوں جانسن اینڈ جانسن، موڈرینا اور فرانسیسی کمپنی سنوفی سے بھی ایسے معاہدے کیے جاچکے ہیں۔

سنوفی کے سربراہ نے مئی میں اپنے بیان سے فرانسیسی حکومت کو اس وقت مشتعل کردیا تھا جب انہوں نے کہا کہ تھا کہ امریکا میں ویکسین کے جو ڈوز تیار ہوں گے وہ پہلے امریکی مریضوں کو فراہم کیے جائیں گے کیونکہ اس ملک نے تحقیق کے لیے مالی امداد فراہم کی ہے۔

س سے قبل مارچ میں بھی ایک ویکسین کی تیاری کے حوالے سے جرمنی کے حکام نے امریکا کے خلاف سخت بیانات دیئے تھے۔

اس وقت ڈوئچے ویلے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جرمنی کی ایک کمپنی کیور ویک کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف ایک ویکسین کی تیاری پر کام ہورہا ہے۔

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ویکسین پر کام کرنے والے جرمن سائنسدانوں کو خطیرے معاوضے کی پیشکش کی ہے کیونکہ وہ ان کے کام کے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

کمپنی کو توقع ہے کہ تجرباتی ویکسین جون یا جولائی تک تیار ہوجائے گی اور پھر لوگوں پر اس کی آزمائش کی اجازت مل سکے گی اور اس نے رپورٹ کی تردید کی تھی۔

کمپنی کے شریک بانی نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ متعدد ممکنہ ویکسینز پر تحقیق ہورہی ہے اور ان میں سے 2 سب سے بہتر کو کلینیکل ٹیسٹوں کے لیے منتخب کیا جائے گا۔

اس جرمن کمپنی کے سابق سی ای او ڈینیئل مینیچلا نے 2 مارچ کو وائٹ ہاﺅس میں ایک اجلاس میں شرکت کرکے کورونا وائرس کے حوالے سے ویکسین کی تیاری پر امریکی صدر اور ان کی قائم کردہ ٹاسک فورس کی ٹیم بات کی تھی۔

مگر 11 مارچ کو کمپنی نے ڈینیئل مینیچلا کو بدلتے ہوئے بانی انگرام ہوئیر کو ان کی جگہ دے دی اور کوئی وجہ بیان نہیں کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں