• KHI: Partly Cloudy 17.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 9.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 17.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 9.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.8°C

پائلٹس کے 'مشکوک' امتحان میں ملوث ملازمین کا سراغ لگانے کیلئے ایف آئی اے کی مدد طلب

شائع July 30, 2020
وزیر ہوابازی کے مطابق 262 پائلٹس کے لائسنسز مشکوک تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیر ہوابازی کے مطابق 262 پائلٹس کے لائسنسز مشکوک تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی

راولپنڈی: ایوی ایشن ڈویژن نے پائلٹس کے مشکوک لائسنسز میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے باعث معطل کیے جانے والے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے 5 افسران کے کیسز وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ارسال کردیے تاکہ امتحان اسکینڈل میں ملوث انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ماہرین کی شناخت کی جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ ایوی ایشن ڈویژن نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھا ہے جس میں سی اے اے کی لائسنسنگ برانچ کے عہدیداروں اور آئی ٹی ماہرین کی شناخت کے لیے مدد طلب کی گئی ہے جو مبینہ طور پر پراکسیز کے ذریعے کچھ پائلٹس کو امتحان دینے میں مدد کرنے میں ملوث ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آئی ٹی کے ماہرین اور نیٹ ورکنگ سے وابستہ دیگر افراد کی شناخت کریں اور اگر وہ پائلٹس کے مشکوک امتحان میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: نجکاری فہرست میں پی آئی اے شامل نہیں، ہمیں اس کی تشکیلِ نو کرنی ہے، غلام سرور   علاوہ ازیں امکان ہے کہ ایوی ایشن ڈویژن کی ٹیم ایک اجلاس میں ایف آئی اے کے ماہرین کے ساتھ ان سی اے اے افسران کے کیسز کا جائزہ لے جنہیں پہلے ہی معطل کردیا گیا تھا اور انہیں پائلٹس کو مشکوک لائسنسز جاری کرنے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد سی اے اے نے پائلٹس کے امتحان اسکینڈل میں ملوث پائے جانے والے کسی بھی شخص کے خلاف زیرو ٹولرینس پالیسی کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس حوالے سے سی اے اے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہاں تک کہ جو پائلٹس کے آرام کے دن امتحان میں شریک ہوئے تھے یا امتحان کے نظام کو ہیک کیا تھا انہیں بھی نہیں بخشا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ لوگ جو فلائنگ ڈیوٹی پر تھے اور اسی دن امتحان میں حاضر ہوئے تھے ان سے بھی نمٹا جائے گا۔   واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ 15 دن کے اندر اس سب کو ٹھیک کرکے نتائج دکھائیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کسی کو نہ چھوڑیں اور تمام بدعنوانوں کو ہٹائیں چاہیں سی اے اے چیف کو ادارے کو ازسرِ نو تعمیر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔   دوسری جانب ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے پائلٹس کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جنہیں مشکوک لائسنسز کے اسکینڈل کے باعث معطل کردیا گیا تھا، کمیٹی آج (بروز جمعرات کو) اپنی رپورٹ جمع کرائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ملائیشیا نے لائسنس مستند ہونے کی تصدیق پر پاکستانی پائلٹس کو بحال کردیا

خیال رہے کہ 24 جولائی کو سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر ہوابازی غلام سرور نے کہا تھا کہ اس حوالے سے لائسنس اتھارٹی کے 5 لوگوں کی معطلی بھی ہوئی، تاہم بات یہاں نہیں رکے گی بلکہ منطقی انجام تک جائے گی اور آخری مجرم تک جائے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ کس کس نے سہولت کاری کی اور جو کچھ لین دین ہوا ہوگا اس میں لینے والا اور دینے والا برابر کے مجرم ہیں، امتحان کس کی جگہ کس نے بیٹھ کر دیا، جس نے کسی کی جگہ بیٹھ کر امتحان دیا، اگر اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو جس نے اس کی جگہ بیٹھ کر امتحان دیا اس کا بھی لائسنس منسوخ ہوگا اور کرمنل مقدمہ درج ہوگا۔

انہوں نے کہا تھا کہ تحقیقاتی بورڈ میں شامل انتہائی تعلیم یافتہ رکن، جو رضاکارانہ طور پر اس مقصد میں کام کررہے ہیں، ان کو ہم نے سہولت کار اور مجرم تک پہنچنے کا ٹاسک دیا ہے۔

وزیر ہوا بازی نے کہا تھا کہ لائسنسنگ اتھارٹی پر ہماری پوری نظر ہے اور ذمہ داران کے خلاف ایکشن ہوگا، جن لوگوں نے اس وقت لائسنسز پر دستخط کیے ان کا بھی احتساب ہوگا اور انہیں بھی جواب دینا پڑے گا۔

پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنسز کا معاملہ

خیال رہے کہ 24 جون کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

بعدازاں 29 جون کو وینتام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پرمقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔

جس کے بعد 30 جون کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوگا۔

اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا تھا۔

جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجنیئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔

بعد ازاں ملائیشیا کی سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے ایم) نے کہا تھا کہ پاکستانی لائسنس رکھنے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے تمام 18 پائلٹس کے لائسنس مستند ہونے کی تصدیق کے بعد انہیں بحال کردیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025