اسلام آباد ہائیکورٹ نے سول ایوی ایشن کو پائلٹ کے خلاف کارروائی سے روک دیا

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2020
عدالت نے وفاقی حکومت سے 10 روز میں جواب طلب کرلیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
عدالت نے وفاقی حکومت سے 10 روز میں جواب طلب کرلیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کو ایک پائلٹ کے خلاف کارروائی سے روک دیا جس کا لائسنس حکام نے ’مشکوک‘ ہونے پر منسوخ کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی اے اے نے درخواست گزار سید ثقلین اختر کا ایئرلائن ٹرانسپورٹ لائسنس مشکوک قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا تھا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ’وفاقی حکومت کو 10 روز میں تحریری جواب دینے کی ہدایت کی جاتی ہے‘۔

ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے وفاقی حکومت سے اس بات کی بھی وضاحت طلب کی کہ ’گزشتہ 2 برس سے سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر مستقل بنیادوں پر بھرتی کیوں نہیں کی گئی‘۔

یہ بھی پڑھیں: سول ایوی ایشن کا مشتبہ لائسنسز پر عہدیداروں کو نوٹس

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ خاصی اہمیت کا حامل ہے اور سی اے اے کے سیکریٹری یا کسی اور شخص کو اس کا اضافی چارج دینا گڈ گورننس کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس دوران درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر گزشتہ 2 برس سے مستقل بنیادوں پر بھرتی نہیں کی گئی۔

وکیل نے عدالت میں ثقلین اختر کا لائسنس منسوخ کرنے کے حوالے سے 14 جولائی کو جاری کردہ آرڈر کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس معاملے کو ڈائریکٹر جنرل سی اے اے نے دیکھنا تھا لیکن یہ عہدہ خالی ہونے کی وجہ سے معاملہ سیکریٹری ایوی ایشن نے حل کیا۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزار کے سامنے ایئر لائن ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس (اے ٹی پی ایل) تھیوریٹکل نالج کا امتحان پاس کرنے کے لیے مبینہ طور پر کوئی اور ذرائع استعمال کرنے کے حوالے سے کوئی مواد پیش نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کے برطرف پائلٹ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا

ساتھ ہی وکیل نے یہ بھی کہا کہ چونکہ سیکریٹری ایوی ایشن اور ڈائریکٹر جنرل سی اے اے کا عہدہ ایک ہی شخص کے پاس ہے اس لیے 14 جولائی کو جارہ کردہ حکم نامہ قابل عمل نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حکم جلد بازی میں جاری کیا گیا جو منصفانہ کارروائی کے اصولوں کے خلاف ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سیکریٹری ایوی ایشن، سی اے اے اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 12 اگست تک ملتوی کردی۔

عدالت نے فریقین کو حکم دیا کہ حکام کو ’درخواست گزار کے خلاف آئندہ سماعت تک مجرمانہ کارروائی شروع کرنے سے روکا جاتا ہے‘۔

پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنسز کا معاملہ

خیال رہے کہ 24 جون کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پائلٹس کے لائسنس جعلی یا مشکوک؟ اصل معاملہ آخر ہے کیا؟

وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، جس میں پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

بعدازاں ایوی ایشن ڈویژن نے پائلٹس کے لائسنسز کی جانچ اور تصدیق کے دوران 161 پائلٹس کے لائسنسز معطل کردیے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں